"آيا صوفيا" میوزیم کو ایک مسجد میں تبدیل کرنے کے لئے اردوگان کا فیصلہhttps://urdu.aawsat.com/home/article/2383666/%D8%A2%D9%8A%D8%A7-%D8%B5%D9%88%D9%81%D9%8A%D8%A7-%D9%85%DB%8C%D9%88%D8%B2%DB%8C%D9%85-%DA%A9%D9%88-%D8%A7%DB%8C%DA%A9-%D9%85%D8%B3%D8%AC%D8%AF-%D9%85%DB%8C%DA%BA-%D8%AA%D8%A8%D8%AF%DB%8C%D9%84-%DA%A9%D8%B1%D9%86%DB%92-%DA%A9%DB%92-%D9%84%D8%A6%DB%92-%D8%A7%D8%B1%D8%AF%D9%88%DA%AF%D8%A7%D9%86-%DA%A9%D8%A7-%D9%81%DB%8C%D8%B5%D9%84%DB%81
"آيا صوفيا" میوزیم کو ایک مسجد میں تبدیل کرنے کے لئے اردوگان کا فیصلہ
مصطفی کمال اتاترک کے ذریعہ جدید ترک جمہوریہ کے قیام کے 11 سال بعد اس یادگار عمارت کو ایک میوزیم میں تبدیل کرنے کا فیصلہ جاری کیا گیا تھا جو سلطنت عثمانیہ کے دور میں ایک مسجد تھی جو اس زمانہ میں گرجا گھر سے ایک مسجد میں تبدیل کیا گیا تھا (اے بی)
انقرہ: سعید عبد الرازق
TT
TT
"آيا صوفيا" میوزیم کو ایک مسجد میں تبدیل کرنے کے لئے اردوگان کا فیصلہ
مصطفی کمال اتاترک کے ذریعہ جدید ترک جمہوریہ کے قیام کے 11 سال بعد اس یادگار عمارت کو ایک میوزیم میں تبدیل کرنے کا فیصلہ جاری کیا گیا تھا جو سلطنت عثمانیہ کے دور میں ایک مسجد تھی جو اس زمانہ میں گرجا گھر سے ایک مسجد میں تبدیل کیا گیا تھا (اے بی)
ترکی کے صدر رجب طیب اردوگان نے گزشتہ روز (جمعہ کو) سپریم انتظامی عدالت کے جاری کردہ فیصلے کے دو گھنٹے سے بھی کم وقت کے بعد استنبول میں "آيا صوفيا" میوزیم کو ایک مسجد میں تبدیل کرنے کے ایک فرمان پر دستخط کر دیا ہے اور اس طرح انہوں نے سنہ 1934 کے اس سرکاری حکم نامہ کو کالعدم کیا ہے جس کی بنیاد پر اس تاریخی یادگار عمارت کو میوزیم میں تبدیل کیا گیا تھا جبکہ اس سے قبل وہ ایک چرچ تھا پھر وہ مسجد بنی۔
اردوگان نے اپنے ٹویٹر اکاؤنٹ پر دستخط کیے ہوئے حکمنامے کی ایک کاپی اور "آيا صوفيا" مسجد کی انتظامیہ کو ترک مذہبی امور اتھارٹی کی صدارت کے حوالے کرنے کے متن کو شائع کیا ہے اور اب اسے نماز کے لئے کھول دیا گیا ہے۔ "آيا صوفيا" میوزیم کو جو مسلمانوں اور عیسائیوں کے لئے بہت ہی اہمیت کا حامل ہے ایک مسجد میں تبدیل کرنے پر تنازعہ کھڑا ہو گیا ہے اور اس کی تاریخ 900 سال قبل کی ہے اور حزب اختلاف کا خیال ہے کہ اردوگان اس مسئلے کو اپنی حکومت کی معاشی اور سیاسی ناکامیوں سے توجہ ہٹانے کے لئے استعمال کررہے ہیں۔(۔۔۔)
دی ہیگ میں "نسل کشی" کے الزام کے بارے میں اسرائیلی تشویشhttps://urdu.aawsat.com/%D8%AE%D8%A8%D8%B1%D9%8A%DA%BA/4785126-%D8%AF%DB%8C-%DB%81%DB%8C%DA%AF-%D9%85%DB%8C%DA%BA-%D9%86%D8%B3%D9%84-%DA%A9%D8%B4%DB%8C-%DA%A9%DB%92-%D8%A7%D9%84%D8%B2%D8%A7%D9%85-%DA%A9%DB%92-%D8%A8%D8%A7%D8%B1%DB%92-%D9%85%DB%8C%DA%BA-%D8%A7%D8%B3%D8%B1%D8%A7%D8%A6%DB%8C%D9%84%DB%8C-%D8%AA%D8%B4%D9%88%DB%8C%D8%B4
دی ہیگ میں "نسل کشی" کے الزام کے بارے میں اسرائیلی تشویش
بین الاقوامی عدالت انصاف کے پینل نے کل دی ہیگ میں جنوبی افریقہ کی طرف سے اسرائیل کے خلاف دائر کردہ "نسل کشی" کے مقدمے کی سماعت کا آغاز کیا (ای پی اے)
جنوبی افریقہ کی طرف سے دی ہیگ میں بین الاقوامی عدالت انصاف کے سامنے اسرائیل کے خلاف دائر کیے گئے مقدمے کے نتائج کے بارے میں اسرائیلی حکومت میں تشویش پائی جاتی ہے۔ اقوام متحدہ کے اعلیٰ ترین عدالتی ادارے کی نمائندگی کرنے والی اس عدالت، جس کا صدر دفتر دی ہیگ میں ہے، نے کل جمعرات کے روز سے سماعت کا آغاز کیا جو دو دن تک جاری رہے گی۔
پریٹوریا نے عبرانی ریاست پر الزام عائد کیا ہے کہ اس نے غزہ کی پٹی میں "نسل کشی کی روک تھام" معاہدے کی خلاف ورزی کی ہے اور جو اسرائیل غزہ کی پٹی میں کر رہا ہے اس کا جواز 7 اکتوبر 2023 کو تحریک "حماس" کی طرف سے شروع کیے گئے حملے ہرگز نہیں ہو سکتے۔
جنوبی افریقہ نے عدالت میں دائر 84 صفحات پر مشتمل شکایت میں ججوں پر زور دیا ہے کہ وہ اسرائیل کو غزہ کی پٹی میں "فوری طور پر اپنی فوجی کاروائیاں بند کرنے" کا حکم دیں۔ کیونکہ اس کا یہ خیال ہے کہ اسرائیل نے "غزہ میں فلسطینی عوام کے خلاف نسل کشی کی کاروائیاں کی ہیں، وہ کر رہا ہے اور آئندہ بھی جاری رکھ سکتا ہے۔" عدالت میں جنوبی افریقہ کے وفد کی وکیل عدیلہ ہاشم نے کہا کہ "عدالت کے پاس پہلے ہی سے پچھلے 13 ہفتوں کے دوران جمع شدہ شواہد موجود ہیں جو بلاشبہ اس کے طرز عمل اور ارادوں کو ظاہر کرتے ہوئے نسل کشی کے معقول الزام کو جواز بناتے ہیں۔" (...)
جمعہ-30 جمادى الآخر 1445ہجری، 12 جنوری 2024، شمارہ نمبر[16481]