ایران میں مظاہروں کا دائرہ ہوا وسیع اور ہلاکتوں کی تعداد میں ہوا اضافہhttps://urdu.aawsat.com/home/article/3889046/%D8%A7%DB%8C%D8%B1%D8%A7%D9%86-%D9%85%DB%8C%DA%BA-%D9%85%D8%B8%D8%A7%DB%81%D8%B1%D9%88%DA%BA-%DA%A9%D8%A7-%D8%AF%D8%A7%D8%A6%D8%B1%DB%81-%DB%81%D9%88%D8%A7-%D9%88%D8%B3%DB%8C%D8%B9-%D8%A7%D9%88%D8%B1-%DB%81%D9%84%D8%A7%DA%A9%D8%AA%D9%88%DA%BA-%DA%A9%DB%8C-%D8%AA%D8%B9%D8%AF%D8%A7%D8%AF-%D9%85%DB%8C%DA%BA-%DB%81%D9%88%D8%A7-%D8%A7%D8%B6%D8%A7%D9%81%DB%81
ایران میں مظاہروں کا دائرہ ہوا وسیع اور ہلاکتوں کی تعداد میں ہوا اضافہ
مظاہرین کو پرسو روز وسطی تہران کی ایک گلی میں آگ زنی کرتے ہوئے دیکھا جا سکتا ہے
لندن:«الشرق الأوسط»
TT
لندن:«الشرق الأوسط»
TT
ایران میں مظاہروں کا دائرہ ہوا وسیع اور ہلاکتوں کی تعداد میں ہوا اضافہ
مظاہرین کو پرسو روز وسطی تہران کی ایک گلی میں آگ زنی کرتے ہوئے دیکھا جا سکتا ہے
ایرانی شہروں مظاہروں کا دائرہ وسیع ہو چکا ہے اور ان کے ساتھ متاثرین کی تعداد میں بھی اضافہ ہوا ہے اور یہ سب پولیس کی حراست میں ایک نوجوان خاتون کی ہلاکت کے پس منظر میں ایک طرف مشتعل شہریوں اور دوسری طرف سیکورٹی فورسز اور "باسیج" کے درمیان ہونے والی پرتشدد جھڑپوں کے بعد ہوا ہے۔
ویڈیوز میں دکھایا گیا ہے کہ کل شمالی صوبوں اور تہران میں مظاہرے وسیع انداز میں پھیل گئے ہیں اور سپریم لیڈر علی خامنئی کے ہیڈ کوارٹر کے قریب جھڑپوں کے شروع ہونے سے چند گھنٹے قبل احتجاجی تحریک تہران یونیورسٹی سے شروع ہوئی ہے۔(۔۔۔)
عراق ایرانی اپوزیشن کے ہیڈ کوارٹر کو ہٹا رہا ہےhttps://urdu.aawsat.com/%D8%AE%D8%A8%D8%B1%D9%8A%DA%BA/%D8%A7%DB%8C%D8%B1%D8%A7%D9%86/4546271-%D8%B9%D8%B1%D8%A7%D9%82-%D8%A7%DB%8C%D8%B1%D8%A7%D9%86%DB%8C-%D8%A7%D9%BE%D9%88%D8%B2%DB%8C%D8%B4%D9%86-%DA%A9%DB%92-%DB%81%DB%8C%DA%88-%DA%A9%D9%88%D8%A7%D8%B1%D9%B9%D8%B1-%DA%A9%D9%88-%DB%81%D9%B9%D8%A7-%D8%B1%DB%81%D8%A7-%DB%81%DB%92
تہران میں عراقی وزیر خارجہ اپنے ایرانی ہم منصب حسین امیر عبداللہیان کے ساتھ ایک پریس کانفرنس کے دوران گفتگو کر رہے ہیں (اے ایف پی)
عراقی وزیر خارجہ فواد حسین نے کل تہران سے اعلان کیا کہ ان کے ملک نے دونوں ممالک کے درمیان طے پانے والے سیکورٹی معاہدے کے مطابق ایرانی کرد اپوزیشن جماعتوں کے ہیڈ کوارٹر کو ہٹانا شروع کر دیا ہے۔
فواد نے اپنے ایرانی ہم منصب حسین امیر عبداللہیان کے ساتھ ایک پریس کانفرنس کے دوران عراق پر فوجی حملہ کرنے کی ایرانی دھمکیوں پر تنقید کرتے ہوئے کہا کہ "ایران اور عراق کے درمیان تعلقات بہترین ہیں اور عراق یا صوبہ کردستان پر بمباری کی دھمکی دینا مناسب نہیں ہے۔"
عراقی وزیر خارجہ نے "ان ذرائع سے دور رہنے" کی ضرورت پر زور دیتے ہوئے کہا کہ "ہمارے پاس مذاکرات اور سیکورٹی معاہدے کے ذریعے دیگر راستے ہیں، اور مسائل کو بات چیت اور گفت و شنید سے حل کیا جا سکتا ہے۔"
انہوں نے نشاندہی کی کہ "یہ منصوبہ عراق اور کردستان کی صوبائی حکومتوں کے درمیان تعاون پر عمل پیرا ہوتے ہوئے تیار کیا گیا تھا" تاکہ دونوں فریقوں کے درمیان گزشتہ مارچ میں طے پانے والے سیکورٹی معاہدے کو نافذ کیا جا سکے۔ (...)