مشرقی شام میں الباغوز کی لڑائی میں "داعش" کی شکست کے اعلان کی چوتھی برسی سے چند روز قبل امریکہ کے جوائنٹ چیفس آف اسٹاف کمیٹی کے سربراہ جنرل مارک میلی نے کل (ہفتہ کے روز) اچانک شام کا دورہ کیا، تاکہ اس دہشت گرد تنظیم سے نمٹنے کے تقریباً آٹھ سال پرانے مشن کا جائزہ لیا جا سکے اور امریکی افواج کو کسی بھی حملے سے بچانے کے لیے اقدامات کا جائزہ لیا جا سکے۔
خبر رساں ادارے "رائٹرز" نے جنرل میلی کا اپنے ساتھ دورے پر آنے والے صحافیوں کو دیئے گئے بیان کو نقل کرتے ہوئے کہا کہ ان کا خیال ہے کہ امریکی افواج اور شریک شامی افواج "داعش" کی پائیدار شکست کو یقینی بنانے میں پیش رفت کر رہی ہیں۔ جب کہ شامی افواج (سیرین ڈیموکریٹک فورسز) کی قیادت کرد کر رہے ہیں۔ جب ان سے سوال کیا گیا کہ ان کے خیال میں شام میں مشن کو خطرہ ہے تو انہوں نے اس معاملے کو امریکہ اور اس کے اتحادیوں کی سلامتی سے جوڑتے ہوئے جواب دیا کہ، "اگر آپ سمجھتے ہیں کہ یہ (یعنی سلامتی) اہم ہے تو جواب ہاں میں ہے۔"
ریاست ہائے متحدہ امریکہ "شریک مقامی فورسز" کی حمایت میں مشرقی اور شمال مشرقی شام میں تقریباً 900 فوجیوں کو تعینات کر رہا ہے تاکہ تنظیم "داعش" کے خلاف جنگ اور اس کی دوبارہ عدم واپسی کو یقینی بنایا جا سکے۔ کرد "عوامی حفاظتی یونٹس" امریکیوں کی حمایت یافتہ "شریک فورسز" کا بنیادی ستوں ہیں، تاہم ترکی اسے "دہشت گرد" شمار کرتا ہے اور اسے شمالی شام سے بے دخل کرنے کے لیے فوجی آپریشن شروع کرنے کی بارہا دھمکی دے چکا ہے، لیکن واشنگٹن نے اس بنیاد پر مسترد کر دیا کہ یہ "داعش" کے خلاف جنگ کے لیے خطرہ ہے۔(...)
اتوار - 12 شعبان 1444 ہجری - 05 مارچ 2023ء شمارہ نمبر (16168)