مسجد نبویﷺ کے قلمی نسخے... فکری اور شرعی خزانے

ان نوادرات کی نمائش میں 12ویں صدی ہجری کا ایک قرآن کریم بھی شامل ہے

نایاب سائنسی قلمی نسخے اور تحریری آثار (جنرل پریذیڈنسی برائے امور حرمین)
نایاب سائنسی قلمی نسخے اور تحریری آثار (جنرل پریذیڈنسی برائے امور حرمین)
TT

مسجد نبویﷺ کے قلمی نسخے... فکری اور شرعی خزانے

نایاب سائنسی قلمی نسخے اور تحریری آثار (جنرل پریذیڈنسی برائے امور حرمین)
نایاب سائنسی قلمی نسخے اور تحریری آثار (جنرل پریذیڈنسی برائے امور حرمین)

"مسجد نبویﷺ کے نایاب قلمی نسخوں" کی نمائش میں فکری اور قانونی خزانے شامل ہیں، جن میں بارہویں صدی ہجری کا قرآن، سائنسی معلومات کے نایاب اور قیمتی قلمی نسخے اور اہم آثار پائے جاتے ہیں، جو زائرین کو وقت کے ساتھ ساتھ پوری تاریخ میں مسلم اسکالرز کے آثار اور ان کی میراث کی گہرائی تک لے جاتا ہے۔
اس نمائش میں ایسے قلمی نسخوں کے کردار کو اجاگر کیا گیا ہے جنہوں نے علم کو محفوظ رکھنے اور اسے آئندہ نسلوں تک منتقل کرنے کو یقینی بنانے میں اہم کردار ادا کیا۔ یہ نمائش اسلامی علم، عرب اور اسلامی فکری پیداوار کی کامیابیوں اور قدیم ورثے کی دستاویزات کو اجاگر کرتی ہے۔ اس لائبریری میں موجود عربی و اسلامی کتب نے شرعی علوم کے فنون، عربی زبان، فکر، تاریخ اور مختلف ادبیات کی درجنوں علامتوں کی تعمیر میں اپنا مکمل کردار ادا کیا ہے۔(...)

پیر - 26 رمضان 1444 ہجری - 17 اپریل 2023ء شمارہ نمبر [16211
 



"ادیبوں کے عجائب گھر"... عرب ثقافت میں ان کا کیا کردار ہے؟

طحہ حسین میوزیم (رامتان سینٹر)
طحہ حسین میوزیم (رامتان سینٹر)
TT

"ادیبوں کے عجائب گھر"... عرب ثقافت میں ان کا کیا کردار ہے؟

طحہ حسین میوزیم (رامتان سینٹر)
طحہ حسین میوزیم (رامتان سینٹر)

کسی ادیب یا فنکار کے لیے اس کے اپنے ملک میں میوزیم قائم کرنے کا خیال اپنے اندر ایک عمدہ اور خوبصورت معنی رکھتا ہے، جہاں تخلیقی صلاحیتوں کی علامت سمجھی جانے والی شخصیت کا گھر وطن کے لوگوں کو عزت و تکریم دینے کی سوچ اور ورثے کو بچانے کی فکر کے ساتھ علم اور سیاحت کے مرکز میں تبدیل ہو جاتا ہے۔ اس کی کئی بین الاقوامی مثالیں ہیں، جن میں روسی مصنف لیو ٹالسٹائی کا "یاسنیا پولیانا" میوزیم، 1925 سے لندن میں واقع "چارلس ڈکنز" میوزیم اور امریکی ریاست کنیکٹی کٹ میں امریکی مصنف مارک کا گھر شامل ہیں۔ اگرچہ عرب دنیا میں اس طرح کی مثالوں کی کمی نہیں ہے، لیکن پھر بھی تعداد کم ہے اور اصل مسئلہ یہ ہے کہ عرب ثقافتی رجحان کے معیار کے سامنے ان عجائب گھروں کے کمزور پڑتے کردار اور اثر و رسوخ کو بحال اور زندہ  کیسے کیا جائے؟

اس تناظر میں "الشرق الاوسط" نے اپنی اس تحقیق میں دانشوروں اور ادیبوں کی آراء اور مصنفین کے عجائب گھروں کو زیادہ سرگرم اور اثر انگیز بنانے کے لیے ان کی تجاویز کا جائزہ لیا ہے۔

شوقی اور طحہ حسین

عرب ممالک میں مصر ایسا ملک ہے جہاں سب سے زیادہ ادبی عجائب گھر موجود ہیں، جیسا کہ امیر الشعراء احمد شوقی کا میوزیم ہے، جسے "کرمہ ابن ہانی" کے نام سے جانا جاتا ہے اور عربی ادب کے سربراہ طحہ حسین کے لیے خاص "رامتان" ثقافتی مرکز، جب کہ نجیب محفوظ میوزیم اس ضمن میں نیا ہے۔ لیکن یہ میوزیم عام لوگوں پر اثر انداز ہونے سے دور کیوں نظر آتے ہیں؟ اور کیا اس حوالے سے کوئی مستقبل کے منصوبے ہیں؟

احمد شوقی میوزیم کی کیوریٹر امل محمود کہتی ہیں: "وزارت سیاحت کے ساتھ ایک پروٹوکول پر دستخط کرکے اس میوزیم کو سیاحتی نقشے پر رکھا گیا ہے، جس کا مقصد خصوصی کمپنیوں کے ذریعے اس جگہ کو فروغ دینا اور وزارت تعلیم کے ساتھ دوسرے تعاون کے پروٹوکول کے علاوہ اسے اپنے سیاحتی پروگراموں میں شامل کرنا ہے۔"

انہوں نے مزید کہا: "میوزیم (فیس بک) پر اپنے آفیشل پیج پر یومیہ ثقافتی خدمات فراہم کرتا ہے جو امیر الشعراء کے ورثے کو متعارف کرانے سے متعلق ہے۔ میوزیم سوموار اور جمعہ کے علاوہ صبح 9:00 بجے سے شام 4:00 بجے تک کھلا رہتا ہے جس کی بہت معمولی ٹکٹ ہے۔ جب کہ ہم ہر مہینے کے پہلے ہفتہ کو میوزیم کے دروازے مفت کھولتے ہیں۔ ہم تعلیمی سیزن کے دوران طلباء اور اسکالرز کا اور موسم گرما کی تعطیلات کے دوران مختلف شہریتوں کے حامل زائرین کی ایک بڑی تعداد کا خیرمقدم کرتے ہیں، اس کے علاوہ ہم بہت سی تخلیقی ورکشاپس، فنکارانہ ملاقاتیں اور شاعری کی شاموں کا بھی اہتمام کرتے ہیں۔"(...)

پیر-17 رجب 1445ہجری، 29 جنوری 2024، شمارہ نمبر[16498]