"ادیبوں کے عجائب گھر"... عرب ثقافت میں ان کا کیا کردار ہے؟

عرب مصنفین کی اس کی حقیقت اور اس کے اثر کو بحال کرنے کے طریقوں پر بحث

طحہ حسین میوزیم (رامتان سینٹر)
طحہ حسین میوزیم (رامتان سینٹر)
TT

"ادیبوں کے عجائب گھر"... عرب ثقافت میں ان کا کیا کردار ہے؟

طحہ حسین میوزیم (رامتان سینٹر)
طحہ حسین میوزیم (رامتان سینٹر)

کسی ادیب یا فنکار کے لیے اس کے اپنے ملک میں میوزیم قائم کرنے کا خیال اپنے اندر ایک عمدہ اور خوبصورت معنی رکھتا ہے، جہاں تخلیقی صلاحیتوں کی علامت سمجھی جانے والی شخصیت کا گھر وطن کے لوگوں کو عزت و تکریم دینے کی سوچ اور ورثے کو بچانے کی فکر کے ساتھ علم اور سیاحت کے مرکز میں تبدیل ہو جاتا ہے۔ اس کی کئی بین الاقوامی مثالیں ہیں، جن میں روسی مصنف لیو ٹالسٹائی کا "یاسنیا پولیانا" میوزیم، 1925 سے لندن میں واقع "چارلس ڈکنز" میوزیم اور امریکی ریاست کنیکٹی کٹ میں امریکی مصنف مارک کا گھر شامل ہیں۔ اگرچہ عرب دنیا میں اس طرح کی مثالوں کی کمی نہیں ہے، لیکن پھر بھی تعداد کم ہے اور اصل مسئلہ یہ ہے کہ عرب ثقافتی رجحان کے معیار کے سامنے ان عجائب گھروں کے کمزور پڑتے کردار اور اثر و رسوخ کو بحال اور زندہ  کیسے کیا جائے؟

اس تناظر میں "الشرق الاوسط" نے اپنی اس تحقیق میں دانشوروں اور ادیبوں کی آراء اور مصنفین کے عجائب گھروں کو زیادہ سرگرم اور اثر انگیز بنانے کے لیے ان کی تجاویز کا جائزہ لیا ہے۔

شوقی اور طحہ حسین

عرب ممالک میں مصر ایسا ملک ہے جہاں سب سے زیادہ ادبی عجائب گھر موجود ہیں، جیسا کہ امیر الشعراء احمد شوقی کا میوزیم ہے، جسے "کرمہ ابن ہانی" کے نام سے جانا جاتا ہے اور عربی ادب کے سربراہ طحہ حسین کے لیے خاص "رامتان" ثقافتی مرکز، جب کہ نجیب محفوظ میوزیم اس ضمن میں نیا ہے۔ لیکن یہ میوزیم عام لوگوں پر اثر انداز ہونے سے دور کیوں نظر آتے ہیں؟ اور کیا اس حوالے سے کوئی مستقبل کے منصوبے ہیں؟

احمد شوقی میوزیم کی کیوریٹر امل محمود کہتی ہیں: "وزارت سیاحت کے ساتھ ایک پروٹوکول پر دستخط کرکے اس میوزیم کو سیاحتی نقشے پر رکھا گیا ہے، جس کا مقصد خصوصی کمپنیوں کے ذریعے اس جگہ کو فروغ دینا اور وزارت تعلیم کے ساتھ دوسرے تعاون کے پروٹوکول کے علاوہ اسے اپنے سیاحتی پروگراموں میں شامل کرنا ہے۔"

انہوں نے مزید کہا: "میوزیم (فیس بک) پر اپنے آفیشل پیج پر یومیہ ثقافتی خدمات فراہم کرتا ہے جو امیر الشعراء کے ورثے کو متعارف کرانے سے متعلق ہے۔ میوزیم سوموار اور جمعہ کے علاوہ صبح 9:00 بجے سے شام 4:00 بجے تک کھلا رہتا ہے جس کی بہت معمولی ٹکٹ ہے۔ جب کہ ہم ہر مہینے کے پہلے ہفتہ کو میوزیم کے دروازے مفت کھولتے ہیں۔ ہم تعلیمی سیزن کے دوران طلباء اور اسکالرز کا اور موسم گرما کی تعطیلات کے دوران مختلف شہریتوں کے حامل زائرین کی ایک بڑی تعداد کا خیرمقدم کرتے ہیں، اس کے علاوہ ہم بہت سی تخلیقی ورکشاپس، فنکارانہ ملاقاتیں اور شاعری کی شاموں کا بھی اہتمام کرتے ہیں۔"(...)

پیر-17 رجب 1445ہجری، 29 جنوری 2024، شمارہ نمبر[16498]



ایک نئے ترمیم شدہ ایڈیشن میں الف لیلہ و لیلہ (ایک ہزار اور ایک رات) کا اجراء

ایک نئے ترمیم شدہ ایڈیشن میں الف لیلہ و لیلہ (ایک ہزار اور ایک رات) کا اجراء
TT

ایک نئے ترمیم شدہ ایڈیشن میں الف لیلہ و لیلہ (ایک ہزار اور ایک رات) کا اجراء

ایک نئے ترمیم شدہ ایڈیشن میں الف لیلہ و لیلہ (ایک ہزار اور ایک رات) کا اجراء

عراقی دار المدیٰ پبلشرز نے "ایک ہزار اور ایک راتیں" کا ایک نیا ترمیم شدہ ایڈیشن جاری کیا ہے، جس کی تحقیق، تبصرہ اور مقدمہ عراقی عالم محسن مہدی نے پیش کیا، جنہیں ایک نامعلوم کاپی حاصل کرنے میں بیس سال سے زیادہ کا عرصہ لگا یہاں تک کہ انہوں نے اسے (پہلے اصلی عربی نسخے سے ایک ہزار اور ایک راتیں) کے عنوان کے تحت اسے مکمل کیا۔

محقق کی جانب سے لکھے گئے جامع مقدمے میں کتاب کے مخطوطات کی تحقیق اور مشاہدے کے سفر، مطبوعہ نسخوں کے تنقیدی جائزے، کتاب کی زبان، قلمی نسخے اور ان کی ترتیب کے علاوہ متن کے حاشیے پر لکھی گئی علامتوں کی سیر حاصل وضاحت کی گئی ہے۔

انہوں نے اپنے کام کا آغاز الف لیلہ و لیلہ (ایک ہزار اور ایک رات) کے قدیم ترین ایڈیشن سے کیا جو کلکتہ ایڈیشن ہے، اسے شیخ شیروانی الیمانی نے 1814-1818 کے درمیان دو حصوں میں شائع کیا تھا اور اس کا عنوان تھا، "حکایات مائہ لیلہ من الف لیلہ و لیلہ (ایک ہزار اور ایک راتوں سے ایک سو راتوں کی کہانیاں)" تاہم، شیروانی نے اس کتاب کی اشاعت میں اعتماد کئے گئے نسخوں کی شناخت کا ذکر نہیں کیا۔اسی طرح، کتاب کے دیگر ایڈیشنوں میں اصل کتاب کا کوئی سراغ نہیں ملتا جس پر اعتماد کیا گیا تھا۔(...)