"ریاض بک فیئر" ایک ثقافتی پرگرام اور خواتین اور نوجوانوں کی متاثر کن موجودگی

کل ریاض انٹرنیشنل بک فیئر کی سرگرمیاں مکمل ہو گئیں ہیں (سپا)
کل ریاض انٹرنیشنل بک فیئر کی سرگرمیاں مکمل ہو گئیں ہیں (سپا)
TT

"ریاض بک فیئر" ایک ثقافتی پرگرام اور خواتین اور نوجوانوں کی متاثر کن موجودگی

کل ریاض انٹرنیشنل بک فیئر کی سرگرمیاں مکمل ہو گئیں ہیں (سپا)
کل ریاض انٹرنیشنل بک فیئر کی سرگرمیاں مکمل ہو گئیں ہیں (سپا)
اس سال "کلچر کلاسز" کے نعرے کے تحت منعقد ہونے والے "ریاض بین الاقوامی کتاب میلے 2022" کی سرگرمیاں گزشتہ روز اپنے اختتام کو پہنچ گئیں ہیں۔

آج آخری دن بک فیئر میں ہزاروں کی تعداد میں زائرین کی آمد دیکھی گئی ہے جو خواتین اور نوجوانوں کی متاثر کن موجودگی سے ممتاز رہی ہے اور سعودی عرب میں "ادب، اشاعت اور ترجمہ اتھارٹی" کی جانب سے اعلان کردہ پبلشرز میں انعامات تقسیم کیے گئے ہیں جن میں مجموعی طور پر 300,000 ریال کی قیمت رکھی گئی تھی۔

بک فیئر ایوارڈز کے اجراء کی تقریب میں جو ایک ثقافتی شادی کی طرح تھی ادب، اشاعت اور ترجمہ اتھارٹی کے سی ای او ڈاکٹر محمد حسن علوان نے کہا ہے کہ اتھارٹی اس بات پر یقین رکھتی ہے کہ ایک ترقی یافتہ اشاعتی صنعت کا مطلب ایک عرب ثقافتی منظر نامہ میں تمام اداکاروں کے درمیان شراکت داری اور مثبت اور نتیجہ خیز تعاون اور متحرک عرب ثقافت کی توسیع ہے۔(۔۔۔)

اتوار 14 ربیع الاول 1444ہجری -  09 اکتوبر   2022ء شمارہ نمبر[16021]    



"ادیبوں کے عجائب گھر"... عرب ثقافت میں ان کا کیا کردار ہے؟

طحہ حسین میوزیم (رامتان سینٹر)
طحہ حسین میوزیم (رامتان سینٹر)
TT

"ادیبوں کے عجائب گھر"... عرب ثقافت میں ان کا کیا کردار ہے؟

طحہ حسین میوزیم (رامتان سینٹر)
طحہ حسین میوزیم (رامتان سینٹر)

کسی ادیب یا فنکار کے لیے اس کے اپنے ملک میں میوزیم قائم کرنے کا خیال اپنے اندر ایک عمدہ اور خوبصورت معنی رکھتا ہے، جہاں تخلیقی صلاحیتوں کی علامت سمجھی جانے والی شخصیت کا گھر وطن کے لوگوں کو عزت و تکریم دینے کی سوچ اور ورثے کو بچانے کی فکر کے ساتھ علم اور سیاحت کے مرکز میں تبدیل ہو جاتا ہے۔ اس کی کئی بین الاقوامی مثالیں ہیں، جن میں روسی مصنف لیو ٹالسٹائی کا "یاسنیا پولیانا" میوزیم، 1925 سے لندن میں واقع "چارلس ڈکنز" میوزیم اور امریکی ریاست کنیکٹی کٹ میں امریکی مصنف مارک کا گھر شامل ہیں۔ اگرچہ عرب دنیا میں اس طرح کی مثالوں کی کمی نہیں ہے، لیکن پھر بھی تعداد کم ہے اور اصل مسئلہ یہ ہے کہ عرب ثقافتی رجحان کے معیار کے سامنے ان عجائب گھروں کے کمزور پڑتے کردار اور اثر و رسوخ کو بحال اور زندہ  کیسے کیا جائے؟

اس تناظر میں "الشرق الاوسط" نے اپنی اس تحقیق میں دانشوروں اور ادیبوں کی آراء اور مصنفین کے عجائب گھروں کو زیادہ سرگرم اور اثر انگیز بنانے کے لیے ان کی تجاویز کا جائزہ لیا ہے۔

شوقی اور طحہ حسین

عرب ممالک میں مصر ایسا ملک ہے جہاں سب سے زیادہ ادبی عجائب گھر موجود ہیں، جیسا کہ امیر الشعراء احمد شوقی کا میوزیم ہے، جسے "کرمہ ابن ہانی" کے نام سے جانا جاتا ہے اور عربی ادب کے سربراہ طحہ حسین کے لیے خاص "رامتان" ثقافتی مرکز، جب کہ نجیب محفوظ میوزیم اس ضمن میں نیا ہے۔ لیکن یہ میوزیم عام لوگوں پر اثر انداز ہونے سے دور کیوں نظر آتے ہیں؟ اور کیا اس حوالے سے کوئی مستقبل کے منصوبے ہیں؟

احمد شوقی میوزیم کی کیوریٹر امل محمود کہتی ہیں: "وزارت سیاحت کے ساتھ ایک پروٹوکول پر دستخط کرکے اس میوزیم کو سیاحتی نقشے پر رکھا گیا ہے، جس کا مقصد خصوصی کمپنیوں کے ذریعے اس جگہ کو فروغ دینا اور وزارت تعلیم کے ساتھ دوسرے تعاون کے پروٹوکول کے علاوہ اسے اپنے سیاحتی پروگراموں میں شامل کرنا ہے۔"

انہوں نے مزید کہا: "میوزیم (فیس بک) پر اپنے آفیشل پیج پر یومیہ ثقافتی خدمات فراہم کرتا ہے جو امیر الشعراء کے ورثے کو متعارف کرانے سے متعلق ہے۔ میوزیم سوموار اور جمعہ کے علاوہ صبح 9:00 بجے سے شام 4:00 بجے تک کھلا رہتا ہے جس کی بہت معمولی ٹکٹ ہے۔ جب کہ ہم ہر مہینے کے پہلے ہفتہ کو میوزیم کے دروازے مفت کھولتے ہیں۔ ہم تعلیمی سیزن کے دوران طلباء اور اسکالرز کا اور موسم گرما کی تعطیلات کے دوران مختلف شہریتوں کے حامل زائرین کی ایک بڑی تعداد کا خیرمقدم کرتے ہیں، اس کے علاوہ ہم بہت سی تخلیقی ورکشاپس، فنکارانہ ملاقاتیں اور شاعری کی شاموں کا بھی اہتمام کرتے ہیں۔"(...)

پیر-17 رجب 1445ہجری، 29 جنوری 2024، شمارہ نمبر[16498]