امریکی انتظامیہ، چاہے یہ ریپبلکن ہو یا ڈیموکریٹک، پابندیوں کے نظام کو ممالک یا افراد کی پالیسیوں میں ترمیم کے لیے دباؤ کی حکمت عملی کے طور پر مسلسل استعمال کرتی ہے۔ تاہم، اس نظام کو تنقید سے نہیں بچایا جا سکتا، جیسا کہ کچھ لوگوں کا خیال ہے کہ یہ ایک موثر ہتھیار ہے، جب کہ دوسروں کا خیال ہے کہ انتظامیہ نے اسے "بغیر دانتوں کے" استعمال کیا ہے۔
امریکی وزارت خزانہ کے اندازے کے مطابق 2021 کے آخر تک، اس نے 9,421 تنظیموں اور افراد پر پابندیاں عائد کریں۔ مثال کے طور پر سال 2022 میں وزارت خزانہ نے پابندیوں کی فہرستوں میں 2,549 نئے افراد اور تنظیموں کو شامل کیا جن میں سے صرف 225 پر سے پابندیاں ہٹا دی گئیں۔
ان پابندیوں کی اکثریت کا تعلق روس سے ہے جو کہ یوکرین کے ساتھ جنگ کے نتیجے میں ہے، لیکن اس کے علاوہ دیگر ممالک کے افراد و تنظیمات پر بھی پابندیاں عائد کی گئیں ہیں جن میں چین اور شامی حکومت ہیں، جب کہ میکسیکو اور سوڈان سے تعلق رکھنے والے منشیات کے اسمگلرز بھی اس میں شامل ہیں۔ جیسا کہ پیٹرسن انسٹی ٹیوٹ فار انٹرنیشنل اکنامکس کی تحقیق سے پتہ چلا ہے کہ 1970 اور 1997 کے درمیان یکطرفہ امریکی پابندیوں نے صرف 13 فیصد اپنے اہداف حاصل کیے، جب کہ امریکی معیشت کو سالانہ 15 سے 19 ملین ڈالر کے درمیان نقصان پہنچا۔
خیال رہے کہ "الشرق الاوسط" نے وزارت خارجہ، کانگریس، دفاعی انٹیلی جنس ایجنسی اور سوڈان کے لیے خصوصی ایلچی کیمرون ہڈسن کے دفتر کے ساتھ انٹرویوز کے ذریعے اس فائل کی نگرانی کرنے کی کوشش کی ہے۔
جمعہ - 20 ذوالقعدہ 1444 ہجری - 09 جون 2023ء شمارہ نمبر [16264]