عبد المنعم سعید
TT

عرب دنیا میں دو مناظر: تعاون اور تصادم

یہ جیمز روزنو ہی تھے جنہوں نے سرد جنگ کے بعد ریاستوں اور معاشروں کی نقل و حرکت کا عمومی قانون وضع کیا کہ یہ "انضمام Integration" سے لے کر "الگ ہونے Disintegration"  تک ہوگا۔ یورپی ماڈل نے ان عوام، قبائل، قوموں اور ریاستوں کے درمیان انضمام اور تکمیل کا مشاہدہ کیا جو لبرل سرمایہ دارانہ نظام کے تحت پوری تاریخ میں لڑتے رہے؛ سوویت یونین، یوگوسلاویہ اور دیگر کے خاتمے نے معاشرے اور ریاست میں تنوع اور تکثیریت کو سنبھالنے میں ناکامی کا مشاہدہ کیا۔ لیکن اس نقطہ نظر کے تقریباً ایک چوتھائی صدی بعد اور پھر فرانسس فوکیاما کے "تاریخ کے خاتمے" کا اعلان کرنے کے بعد اتنا ہی عرصہ گزر جانے کے بعد، یہ مسئلہ اب پہلے سے کہیں زیادہ پیچیدہ لگتا ہے۔
یورپی یونین سے برطانیہ کے اخراج کے ساتھ ہی ٹوٹ پھوٹ کا ایک ایسا مرحلہ شروع کیا جس کی توقع نہیں تھی اور پھر کریمیا کی عوام کا روس میں شامل ہونے کے لئے ووٹ نے طاقت کی بنیاد پر اتحاد کی شکلیں بحال کیں، اگرچہ یہ قدم یوکرین کو توڑنے کے لئے تھا جو کہ ابھی بھی جاری ہے۔
پچھلی صدی کے پچاس اور ساٹھ کی دہائی کے دوران عرب دنیا میں قوم پرست سیاسی مکتبہ فکر کی بنیاد اس حقیقت پر تھی کہ جو امور وطن کے ساتھ تعلق کو جوڑتے ہیں وہ دیگر تمام انسانی رشتوں سے زیادہ ہونے چاہیے، تاکہ "شہریوں" کے درمیان ایک ایسا رشتہ قائم ہو جو مذہبی اور نسلی رشتوں سے بالاتر ہو۔ چونکہ یہ امر مشکل تھا تو قومی مکتبہ فکر نے "قومی" تعلقات کی حمایت کرنے کی کوشش کی، جس میں زبان، ثقافت، "مشترکہ" تاریخ اور مشترکہ مفادات کو اہمیت دینا شامل تھا۔ اس مکتبہ فکر میں مشترکہ "خطرے" پر زور دینا روز کا معمول بن جاتا ہے اور ان خطرات میں سرفہرست قوم کو توڑنے کے لیے مختلف قسم کے "دشمنوں" کی تلاش ہے۔ لہذا؛ یہ کوئی اتفاق نہیں تھا کہ "قومی" فکر نے نسلی اور فرقہ وارانہ امتیازات کے وجود سے یا تو مکمل انکار کیا، یا انہیں تسلیم کیا۔ لیکن اس نے تعلیم اور میڈیا کے ذریعے سیاسی پرورش کے لیے میکانزم بنایا اور سیاسی ڈھال کے لیے پارٹی ٹولز کا استعمال کرتے ہوئے تمام فرقوں سے پرجوش قوم پرستوں کو نکالا۔ حیرت کی بات یہ ہے کہ قوم پرست سوچ کے نتیجے میں اقلیتوں کے درمیان اس کے مخالف فکر پروان چڑھی اور انہوں نے اپنی ثقافت اور روایات کے اظہار کے لئے اپنی الگ قومی ریاست کے بارے میں سوچنا شروع کر دیا۔ عرب دنیا میں قومی مکتبہ فکر نے یہی کیا اور کئی سالوں سے اقیلتوں کی حالت کے سوال پر ہر عرب ملک کا یہی جواب تھا کہ سب کچھ ٹھیک ہے۔ بلکہ جواب دہندہ کسی مذہبی، نسلی یا لسانی گروہ کو بطور "اقلیت" شمار کرنے سے انکار کر دے گا کہ سب برابر کے شہری ہیں اور سب ایک "مرکب" کی طرح جُڑے ہوئے ہیں۔
اکیسویں صدی کی دوسری دہائی کے آغاز میں عرب ریاستوں میں قومی مکتبہ فکر کو سخت امتحانات کا سامنا کرنا پڑا، جس میں سب سے زیادہ سخت امتحان وہ تھا جسے مغربی دنیا نے "بہار عرب" کا نام دیا اس خیال میں کہ انقلابات اور عوام جمہوریت، لبرل ازم اور سرمایہ داری کا مطالبہ کر رہے ہیں۔ اصل میں جو ہوا وہ مذہبی فاشزم کا ظہور تھا، جو نہ تو قوم پرست تھا اور نہ ہی قومی ریاست کا ماننے والا، سب کی سیاسی زندگی کے بارے میں اس کا نقطہ نظر سرحدوں کے اندر اور باہر دوسروں پر "مذہبی برتری" پر مبنی تھا۔ جس کا نتیجہ ایک المناک صورتحال تھی جو بلند ہوتے دھوئیں، بھڑکتی آگ، تباہ شدہ شہر، مردوں، مقتولوں، زخمیوں، مہاجرین اور بے گھر افراد سے بھری تھی۔ یہ ایک المناک پہلو تھا جو دائمی متحد قوم پرست شام میں ظاہر ہوا اور یہ متنازع اطراف کے مابین علاقوں کی آبادی کے تبادلے کے معاہدے کے ساتھ آیا، چنانچہ شیعہ وہاں جاتے ہیں جہاں شیعہ ہیں، اور سنی وہاں جاتے ہیں جہاں سنی ہیں۔ تو ہم نسلی صفائی کی خالص حالت تک پہنچ جاتے ہیں؛ دہشت گردی کو انسانی تبادلے کی گھڑی میں بس کو دھماکے سے اڑانے میں کوئی اخلاقی مسئلہ نہیں جب ایک المناک ڈرامائی لمحے میں خون اور لاشیں آپس میں گئیں اور جس کے بار میں نہ سنی کو معلوم ہے نہ شیعہ  کو۔ شام اور یمن میں یہ مناظر اب بھی عام ہیں اور ان کی کچھ صورتیں عراق، لبنان، لیبیا اور سوڈان میں بدستور بڑھ رہی ہیں اور مجموعی طور پر تبدیلی کے خلاف مزاحمت کا ایک گہرا منظر تشکیل دیتی ہیں اور اگر اس کی جانب کوشش کی گئی تھی تو یہ مخصوص اور علاقائی تقسیم کی سمت میں تھی، یا "فوجی جزو اور سویلین جزو" کے درمیان، یا فرقوں کے ماننے والوں یا پھر قبائل اور علاقوں کے لوگوں کے درمیان تھی۔ توڑنا یا ختم کرنا ایک عمومی خصوصیت ہے جس کے لیے بین الاقوامی و علاقائی کوششوں، فوجی و سفارتی کوششوں کی ضرورت ہوتی ہے تاکہ جو کچھ بچایا جا سکتا ہو اسے بچایا جا سکے۔
لیکن عرب دنیا میں ایک اور منظر بھی ہے جو شاہی ممالک میں آیا جو پوری بہار سے بچے رہے یا وہ جو تھوڑے ہی عرصے میں اس پر قابو پانے میں کامیاب ہو گئے تھے، تاکہ قومی ریاست کی بنیادوں پر مبنی جامع اور گہری اصلاحات سے اس کے جغرافیہ و تاریخ میں جامع ترقی کا ایک نیا مرحلہ شروع کیا جا سکے۔ اس فریم ورک میں جو ممالک شامل ہیں وہ عرب خلیجی ریاستیں، مصر، اردن، الجزائر، مراکش اور حال ہی میں تیونس؛ یہ سب اپنے داخلی تنوع، علاقائی استحکام کے ساتھ ساتھ ان عرب ممالک اور جغرافیائی ہمسایہ ممالک، اگر وہ اس کے لئے تیار ہیں، کے مابین اقتصادی تعاون کے حصول کے لیے مستقل جستجو کر رہے ہیں۔ "العلا اعلامیہ" جو سعودی شہر "العلا" میں خلیج تعاون کونسل کے سربراہی اجلاس کے دوران جاری کیا گیا، یہ سمجھنے کے لئے ایک واضح لمحہ تھا کہ اندرونی اصلاحات کے عمل کے ساتھ ساتھ عرب خطے میں تعلقات کے رویے کی اصلاح بھی ہونی چاہیے۔ اس کے بعد اس کی تعبیر نے مختلف راہیں اختیار کیں، جو سب سے زیادہ اس وقت واضح ہوئی جب نو عرب ممالک اور امریکا کے درمیان عرب - امریکی سربراہی اجلاس منعقد ہوا۔ ہمارے خیال میں جب بھی دنیا کے دوسرے بڑے ممالک کے ساتھ عرب سربراہی اجلاس منعقد ہوں گے ان ایسا ہی ہوگا۔
اس طرح، اس مضمون کے آغاز میں جیمز روزنو نے جن دو مناظر کی نشاندہی کی ہے وہ دراصل عرب خطے کے ہیں۔ جب کہ ٹوٹ پھوٹ کا منظر سانحات کا سامنا کرتے ہوئے اپنے آپ پر اصرار بند رہتا ہے؛ امن کے اقدامات، سمندری سرحدوں کی منصوبہ بندی، اقتصادی خطوں کے قیام، قومی مفادات کی پختگی، اور ایک درست تعریف کے ساتھ تعاون کا منظر بڑھ رہا ہے جو تعمیر اور ترقی کی سفارت کاری میں مدد کرتا ہے۔ دونوں مناظر کا تعلق نازک اور لطیف ہے، اور شاید عراق ان دونوں مناظر کے درمیان آدھے راستے میں دکھائی دے سکتا ہے، اس کے ساتھ ساتھ یہ عرب تاریخ کے پچھلے مرحلے کا اسیر بھی نظر آتا ہے جو اس بار داخلی اور خارجی اعتبار سے ملا جلا ہے۔ عراق جغرافیائی طور پر خلیج عرب اور اس کی سماجی اور تاریخی روایات کا ایک لازمی حصہ ہے۔ لیکن یہ عرب خطہ میں بڑی کشیدگی کے علاقے میں بھی واقع ہے جسے مشرقی عرب کہا جاتا ہے۔ خلیج میں حکمران خاندان استحکام کی حمایت کرنے کے قابل تھے اور پھر تیل کے ساتھ قومی ریاست کی طرف سب کو متوجہ کرنے کے مواقع بڑھ گئے۔ لیکن مشرق میں تقسیم کا المیہ سائکس-پکوٹ کے بعد سے ہے اور اس سے قبل نسلی تقسیم صدیوں سے ہے۔(...)

بدھ - 25 صفر 1444 ہجری- 21 ستمبر 2022ء شمارہ نمبر [16003]