عبد المنعم سعید
TT

رنگین معاشیات!

ہر زمانہ میں ایک بات اور ایک جگہ ہوتی ہے اور یہ جگہ کائنات کی حرکت، اس کے ٹھوس اور دیکھے جانے والے توازن اور اس کے پرتشدد اور خوش کن واقعات کی طرف اشارہ کرتی ہے؛ جہاں تک بات کا تعلق ہے تو وہ یہ ہے کہ اس پورے وقت کو کس طرح بیان کیا جائے کیونکہ اس میں بہت سے واقعات ہوتے ہیں، کہیں بہت سے الفاظ اور کہیں بہت سے ہتھیار کا استعمال ہوتا ہے؟

جب جگہ کی بات ہوتی ہے تو ہم اکثر وبیشتر بہت دور چلے جاتے ہیں اور اس میں ڈوب جاتے ہیں اور بعض اوقات یوکرین کی جنگ جیسی کوئی چیز ہماری گھڑیوں پر ظلم کرتی نظر آتی ہے اور یہ حیرت کی بات ہے کہ ہم اس میں موجود ہر چیز کو یعنی اس کی صبح وشام اور اس کے خون اور پانی تک کو بیان کرتے رہتے ہیں؛ کیونکہ یہ غیر یقینی صورتحال کی کیفیت کا اظہار کرتی ہے جو مغربی رسالوں میں ایک عام عنوان ہو چکی ہے۔ لیکن گفت وشنید بھی ان وضاحتوں سے بھری ہوئی ہے جو ہمیں مجموعی طور پر متوجہ کرتی ہے کہ اگر ایسا ہوتا ہے تو یہ ہوگا اور وہ ہوگا اور جہاں تک اس میں کمی اور نقص کی بات ہے تو وہ گناہ اور معصیت ہے۔ اس بار میں یہ کہنے میں منصف ہونے کی کوشش کروں گا جو کسی بھی صورت میں اس شعبے سے متعلق ہے جس کے بارے میں میں بہت کم جانتا ہوں جو نصف صدی سے زیادہ عرصہ قبل قاہرہ یونیورسٹی کی فیکلٹی آف اکنامکس اینڈ پولیٹیکل سائنس میں کی گئی تھی اور یہ ان ماہرین اقتصادیات کے ساتھ  ہونے والی بات چیت سے ماخوذ ہے جو ہمارے دوست ہیں اور جن کے پاس ملک کی معیشت کو سنبھالنے کا وقت ہے۔ گفتگو اپنے راستہ سے نہ ہٹ جائے اس لئے میں کہہ دیتا ہوں کہ یہ معیشت کے اوصاف کا معاملہ ہے اور کسی زمانے میں یہ معاشی فصلوں کے سنہرے رنگ ہوتے تھے۔ مصر میں روئی کی قیمت تصور سے زیادہ اس وقت بڑھ گئی جب اسے سفید سونا کہا جانے لگا، سعودی عرب میں معاملہ اس وقت درست ہو سکتا ہے جب اس کی معیشت تیل پر مبنی ہوگئی جسے "بلیک گولڈ" کہا جانے لگا اور یہ خیال کیا جاتا تھا کہ سفید اور سیاہ کے درمیان رنگ کا معاملہ ختم ہو جائے گا اور ان دونوں میں جادو ہے اور رات اور صبح سے ہی امن اور امید وابستہ ہے؛ لیکن ہوا یہ ہے کہ حالیہ برسوں میں رنگ مختلف ہیں اور معیشت ایک ہے اور وہ طلب اور رسد ہے۔

معیشت کا رنگ اب کسی فصل یا اجناس کی کمی سے وابستہ نہیں ہے، بلکہ تعلقات، معاشی سرگرمیوں اور توانائی کی ایک شکل سے جڑا ہوا ہے۔ دیکھئے جسے "سبز" معیشت کہا جاتا ہے، اور اس کے مترادفات "صاف" اور ماحول دوست ہیں درحقیقت اس کی اصل شمسی توانائی یا "سولر" کی وجہ سے سنہری ہے جسے جمع کیا جا سکتا ہے تاکہ یہ خود کو غیر معینہ مدت تک چلا سکے۔ 2010 میں میں نے جاپان کا دورہ کیا اور میں نے جو عجائبات دیکھے ان میں پیناسونک کمپنی کی نئی ایجادات کا دورہ بھی ہے جن میں مجھے ٹی وی اسکرین کا غائب ہونا بھی ملا جو گھر کی دیوار بن چکی ہے اور آپ اپنے ہاتھوں سے اس اسکرین کے سائز کو کنٹرول کر سکتے ہیں اور اس کی لمبائی اور چوڑائی بھی فکس کر سکتے ہیں  اور تصویر کی وضاحت اور ترکیز پر بھی کنٹرول کر سکےت ہیں۔ جب میں نے پوچھا کہ یہ کیسے ہوا؟ مجھے بتایا گیا: کیونکہ ہم - علماء - اب بہت سادہ  ہو چکےہیں لیکن ضرورت سے زیادہ سادہ خیال ایک ایسا گھر تھا جو اپنے آپ کو توانائی  کی غذا دیتا ہے، تھوڑی سی شمسی توانائی لیتا ہے جو اس کی چھت کے اوپر سے گزرتی ہے لیکن آخر میں چراغوں سے نکلنے والی روشنی اور فریج، چولہے، کمپیوٹر اور ٹی وی سکرین سے  نکلنے والی توانائی کو ہٹا کر توانائی کو ہر وقت ری سائیکل کرتا ہے پھر دوبارہ اسی گھر میں استعمال کیا جاتا ہے۔ "گرین اکانومی" صرف سورج سے نہیں آتی بلکہ ہائیڈروجن کی طرح توانائی کے ایک ذریعہ کے طور پر بھی ہو سکتی ہے جو جہازوں کو حرکت دیتی ہے اور شاید پورے شہروں کو روشن کر سکتی ہے۔

"بلیو اکانومی" ہمیشہ سمندروں سے منسلک رہی ہے جہاں سامان اور تجارتی سامان لے جانے والے بڑے بحری جہاز تیرتے شہروں کی طرح نظر آتے ہیں، یہ ایک نسبتاً نئی دریافت  سامنے آئی ہے جب گلوبلائزیشن نے پوری کائنات پر یلغار کیا ہے اور اب سمندر میں خود  اپنی پوشیدہ دولت ہے جو تیل، گیس اور سیاحت کی شکل میں ہے اور دوسرے کا اعلان نقل و حمل کی صورت میں کیا گیا ہے۔ ڈنمارک کی بین الاقوامی کمپنی مارسک ڈنمارک کی ملکی پیداوار کا ایک اہم حصہ ہے اور پرانے زمانے میں جب پرتگال اور اسپین کی عظیم سلطنتیں دنیا کو تقسیم کرنے والی تھیں تو یہ اقتصادی مراکز کی بنیاد پر کرنے والی تھیں جن کے درمیان تاجر گندم اور مصالحے نیز افیون لے کر جایا کرتے تھے۔

حال ہی میں مشرقی بحیرہ روم میں مشرقی بحیرہ روم فورم تشکیل دیا گیا جس میں سات ممالک شامل ہیں اور وہ مصر، فلسطین، اردن، اسرائیل، یونان، قبرص اور اٹلی جیسے ممالک ہیں۔  اگرچہ گیس اور اس کی پیداوار، مینوفیکچرنگ اور لیکیفیکیشن فورم کی اقتصادی بنیاد ہیں لیکن یہ مشرقی بحیرہ روم ہے جس نے معیشت کو وجود بخشا ہے،  نیلے سمندری پڑوس نے ایسے امکانات اور تعاملات پیدا کئے ہیں جو نہ صرف متعلقہ ممالک کی معیشتوں پر اثر انداز ہوئے بلکہ لیکن دوسرے ممالک پر بھی اثرانداز ہوئے ہیں جنہوں نے لبنان اور اسرائیل کے درمیان بھی معاہدہ کیا ہے اور  یہ ایک ایسی ریاست کو بچانے کی وجہ ہو سکتی ہے جس کی بنیادیں منہدم ہو رہی ہیں اور غزہ سے گیس نکالنے کی صورت میں خطے میں استحکام کے لئے دوسرے "ابراہیمی" مواقع  بھی پیدا ہو سکتا ہیں۔ "بلیو اکانومی" سمندر میں تعاون پر مبنی ایک فریم ورک ہے اور جیسا کہ مشرقی بحیرہ روم میں ہوا  ہے یہ شمالی بحیرہ احمر میں ہو سکتا ہے جہاں سیاحت اور تعمیرات ایک اہم اقتصادی وسائل ہیں۔

معیشت کے رنگ کی وجہ سے بہت سے مواقع پیدا ہوئے ہیں جن کے تعلق کا کسی خاص خطے سے ہونا ضروری نہیں ہے ؛کیونکہ اوپک پلس بہت سے ممالک کو اکٹھا کرتا ہے، جن میں سے سبھی "کالا" سونا پیدا کرتے ہیں۔

یہ ایک اقتصادی رشتہ ہے جس پر امریکہ نے اس گروپ پر الزام لگا کر قابو پانے کی کوشش کی ہے کیونکہ اس نے تیل کی پیداوار کو کم کرنے کا تہیہ کر رکھا تھا جو ایک ایسی منڈی میں توازن بحال کرنے کے لئے ضروری تھا جو ایک ایسی جنگ سے ہل گئی تھی جسے کوئی نہیں چاہتا تھا اوراس بارے میں  کسی نے ووٹ بھی نہیں دیا تھا اور اس میں جس چیز نے مداخلت کی ہے وہ  صرف تیل نہیں ہے  بلکہ خوراک بھی ہےاور اسی وجہ سے گندم بھی ایک  "سنہری" معیشت بن گئی جو کہ ایک نایاب شے بن چکی ہے۔  جنگ اب ایک "جیو پولیٹیکل" جنگ نہیں رہی جس میں روس کو بحر اوقیانوس کے اتحاد کی توسیع کا خدشہ تھ اور  نہ ہی یہ ایک "جیو اکنامک" جنگ ہے جس میں گیس، تیل اور توانائی کے تعلقات کا بائیکاٹ اور منقطع ہونا ہے  بلکہ یہ خوراک اور زندگی کے خلاف ایک جنگ ہے۔ ایسا لگتا ہے کہ یوکرین "سنہری" اجناس کا ایک بڑا ذریعہ ہے جس پر مشرق وسطی کے بہت سے ممالک انحصار کرتے ہیں۔ رنگ پیچیدگی کی ایک اور شکل بن گیا ہے جس میں مفادات صرف اوورلیپ یا ٹکراتے  ہیں اور لیکن رنگ  بھی اپنا رنگ دکھاتا ہے۔

موت اور زندگی حال ہی میں ایک قسم کی "براؤن اکانومی" میں داخل ہوتے دکھائی دئے ہیں جو قدیم مصری ممیوں سے نکلتی ہے جس سے اس وقت ایک الگ رنگ ابھرتا ہے جب اسے کچلا جاتا ہےاور یہ فن کے بہت سے کاموں میں داخل ہو چکا ہے۔ 15 اکتوبر کو جاری ہونے والے جریدے Ancient Origins میں جو موت سے آنے والی اس خوش قسمتی کا مکمل شمارہ ہے اس میں ممیاں اب صرف ممی شدہ لاشیں نہیں ہیں جنہیں لوگ قاہرہ کے میوزیم آف سولائزیشنز میں نظر انداز کرتے ہیں جہاں عظیم لیڈروں کے آثار پڑے ہیں جنہیں دنیا کے کونے کونے سے آنے والے سیاح آکر دیکھتے ہیں یا جنہیں خوفناک فلموں میں تفریح ​​​​کے لئے استعمال کیا جاتا ہے جو فرعونوں کی لعنت کے بارے میں عام طور پر جانا جاتا ہے بلکہ اب ممیاں ایک اور قسم کی غیر سیاح یا یہاں تک کہ تاریخی معیشت بن چکی ہیں بلکہ دوا کا ایک ذریعہ بھی بن چکے ہیں اور سب سے اہم بات یہ ہے کہ نایاب قسم کی "براؤن" آرٹ پینٹنگز کے لئے بھی مصدر بن چکے ہیں جن کا ایک گرام سونے کی مقدار کے برابر قرار دیا جاتا ہے۔ انیسویں صدی میں جب مغربی مشن مصر آئے تو ان کا مقصد قدیم تہذیبوں کو دریافت کرنا یا انہیں اوبلیسک سے لے کر ممی تک چرانا بھی نہیں تھا بلکہ فنکاروں کا نصیب اور خوش قسمتی تھی کہ جب انہوں نے پایا کہ ممیوں کو پیسنے سے نایاب "براؤن"  رنگ نکلتا ہے جس کی کوئی مثال یا نظیر  نہیں ہوتی ہے۔

جو ہوا ہے یہ عظیم مردوں اور عظیم خواتین کے عظیم پورٹریٹ بنانے میں استعمال ہوتی ہے اور معلوم ہے کہ جس پینٹنگ میں ممی کا پاؤڈر استعمال کیا گیا ہے وہ سب سے مہنگی ہوتی ہے۔ ممیاں اپنی سیاحتی اور تاریخی قدر سے ہٹ کر ایک صنعت بن چکی ہیں اور ان کی سب سے بڑی قیمت ان کے پاؤڑد کے رنگ سے نکلی ہے جس کا ایک گرام سونے کے وزن کے برابر ہے۔ ممیوں کی دریافت زیادہ تر ایک خفیہ صنعت بن چکی ہے لیکن یہ بڑے عجائب گھروں اور آرٹ کے رسالوں میں عام ہو چکی ہے۔

بدھ 01 ربیع الثانی 1444ہجری -  26 اکتوبر   2022ء شمارہ نمبر[16038]