عبداللہ بن بجاد العتیبی
TT

دنیا کا خاتمہ... تاریخ اور سیاست کی ہم آہنگی

"دنیا کا خاتمہ" ایک ایسی پیشن گوئی ہے جو تاریخ و جغرافیائی طور پر متعدد ثقافتوں اور مذاہب کی طرف سے منتقل ہوتی رہی ہے، جن میں یہودیت، عیسائیت اور اسلام تین آسمانی مذاہب اہم ترین ہیں جنہوں نے اس کی خوفناک تفصیلات بیان کیا جو ان کے اکثر پیروکاروں کے اذہان میں وقت کے ساتھ پختہ ہوگئیں اور سیاست نے اس کے ذریعے انسانی تاریخ کی طویل ترین ہم آہنگی دکھائی۔
امریکی صدر جو بائیڈن نے روسی صدر ولادیمیر پوٹن کی یوکرین میں بڑے پیمانے پر تباہی پھیلانے والے ہتھیاروں کے استعمال کی دھمکیوں کے بارے میں انتباہ کرتے ہوئے "آرماگیڈن" جنگ اور دنیا کے خاتمے کی جنگ کے بارے میں بات کی، یہاں تاریخ، ورثے اور مذہب کے درمیان اور سیاست، مفادات اور مستقبل کے درمیان جان بوجھ کر ابہام پایا جاتا ہے تاکہ پیروکاروں کو جمع کیا جائے اور عوام کے عقائد سے کھیلا جا سکے۔
تاریخ اور سیاست کی ہم آہنگی ہمیشہ مختلف ثقافتوں اور مختلف قوموں میں وقت اور جگہ کے ساتھ مکمل طور پر مل کے چلتی رہی ہے اور ان کے تضادات ان کی ساخت کا حصہ ہیں۔ اگرچہ تاریخ و سیاست میں تفصیلی اعتبار سے اختلاف ہے اور ان کا تنازعہ جاری ہے مگر یہ عمومی طور پر متفق ہیں اور دونوں ایک دوسرے کو اس بحث میں نہیں ڈالتے کہ پہلے "انڈا" یا "مرغی"؟
آج کی اس ہم آہنگی میں، یوکرین کی جنگ کے بارے میں ایک اہم حوالہ، جس میں امریکہ نے مغربی ممالک اور "نیٹو" اتحاد کے ساتھ مل کر روس کو جنگ میں راغب کرنے کے لیے اپنی ہر ممکن کوشش کی، اور جب روس جنگ میں داخل ہوگیا تو ان ممالک نے روس کو زیر کرنے کے لیے یوکرین کو انتہائی جدید روایتی ہتھیاروں اور اربوں ڈالر کے ساتھ لامحدود اور بے مثال مدد فراہم کی۔ پھر اس کے ساتھ ہی انہوں نے روس کو محاذ آرائی میں کمزور کرنے کے لیے اس پر بے مثال پابندیاں عائد کر دیں۔
روس کا "ایٹمی جنگ" کی طرف بڑھنے کی دوسری وجہ اس کی فوج کو جدید اور معیاری روایتی ہتھیاروں سے شکست دینے پر اصرار اسے مجبور کر رہا ہے کہ وہ تمام مساوات کو بدل ڈالے اور جنگ کو بڑے پیمانے پر تباہی پھیلانے والے ہتھیاروں میں منتقل کر دے اور اب "ایٹمی" جنگ زیادہ دور نہیں کہ جب دنیا کا خاتمہ ہر موجودہ چیز میں ہوگا۔
میڈیا بھی اس سمفنی میں موجود ہے، مغربی میڈیا نے حیرت انگیز تفصیلات کا انکشاف کیا کہ کیسے روسی فوج کو یوکرین میں ناکام و کمزور کر کے توڑا اور بکھیرا گیا جسے عالمی میڈیا نے رپورٹ کیا۔ ہر کوئی بھول جاتا ہے کہ اسی فوج نے یوکرین کے چار بڑے علاقوں کا سیاسی و جغرافیائی طور پر روس کے ساتھ عملی الحاق کیا، جیسا کہ عرب کہتے ہیں: ان پر لعنت بھیجو اور اونٹوں کے ساتھ چلو، یہاں سمفنی میں دو نئی دھنیں شامل ہوئیں: توانائی کی مارکیٹ اور ایٹمی جنگ۔
جیسے سمفنی میں دھنیں آپس میں ملتی ہیں، ساز آپس میں جڑ جاتے ہیں اور موسیقار ہم آہنگ ہوتے ہیں، اسی طرح توانائی کی منڈیوں میں دو چیزیں اہم ہیں: گیس اور تیل؛ گیس کے معاملے میں امریکہ کئی سالوں سے یورپی ممالک کو روسی گیس چھوڑ کر امریکی گیس درآمد کرنے کی پیشکش کر رہا تھا، لیکن یورپ نے انکار کر دیا، جسے کونڈالیزا رائس نے واضح طور پر بیان کیا۔ اس یوکرینی جنگ کے میں یورپی ممالک غیر معمولی انداز میں امریکی موقف پر جمع ہوگئے اور روس اور یورپ کے درمیان دو گیس سپلائی لائنز "نارڈ سٹریم 1 اور 2" کو مؤثر انداز سے تباہ کر دیا گیا، جب یورپی ممالک میں تباہی آئی تو "فائدہ اٹھانے والے" کو تلاش کرنا اور جاننا مشکل نہیں کیونکہ امریکی گیس روسی گیس سے چار گنا زیادہ قیمت پر پیش کی جاتی ہے۔
پچھلے مارچ میں، ان سطور کے مصنف نے لکھا: "یوکرین روس کے ساتھ مغرب کی جنگ کا شکار ہے... دوسرا شکار یورپی ممالک ہیں۔" اور "امریکہ روس کو ختم کرنے کے لیے ہولوکاسٹ میں (یورپ کی) قربانی دینا چاہتا ہے۔" یہ یورپی ممالک کی بوکھلاہٹ ہے جو آج واضح ہو چکی ہے۔ ایک جرمن وزیر نے واضح الفاظ میں امریکہ پر تنقید کی کہ "وہ ہمیں آسمان سے باتیں کرنے والی قیمتوں پر قدرتی گیس فروخت کر رہا ہے" اور فرانسیسی صدر میکرون نے امریکیوں سے کہا: "اپنی صنعت کی قیمت سے چار گنا زیادہ قیمت تمہیں ادا کرنا دوستی کا صحیح مطلب نہیں ہے۔"
تیل میں، "اوپیک پلس" تنظیم نے برآمد کرنے والے ممالک کے مفادات اور ان کی عوام کے مفادات کو مدنظر رکھتے ہوئے عالمی تیل کی منڈیوں کے استحکام کو یقینی بنانے کے لیے پیداوار میں 20 لاکھ بیرل یومیہ کمی کرنے کا فیصلہ کیا۔ سعودی وزیر مملکت برائے خارجہ امور عادل الجبیر نے امریکی چینل "فاکس نیوز" کو انٹرویو دیتے ہوئے کہا: "ہماری نظر میں تیل عالمی معیشت کے لیے ایک اہم شے ہے جس میں ہمارا بڑا مفاد ہے، لیکن ہم تیل یا اس سے متعلق فیصلوں پر سیاست نہیں کرتے۔" انہوں نے مزید کہا کہ "ہم تیل کی منڈیوں میں استحکام کو یقینی بنانے کے لیے پرعزم ہیں اور ہم اس بات کو یقینی بنانے کے لیے فعال انداز میں کام کر رہے ہیں کہ توانائی کی منڈیوں میں کوئی گراوٹ نہ ہو۔"
الجبیر کے بیانات واضح ہیں اور یہ سعودی وزیر توانائی شہزادہ عبدالعزیز بن سلمان کے بیانات سے زیادہ واضح ہیں۔ الجبیر کے بیانات اس لیے سامنے آئے کیونکہ واشنگٹن کی طرف سے جو ردعمل سامنے آیا وہ معمول سے ہٹ کر تھا اور فیصلے کو تجارتی میدان سے سیاست کی جانب منتقل کر دیا گیا تھا۔ صدر بائیڈن نے - بغیر کسی جواز کے - اپنے شہریوں سے خطاب میں تاریخ اور سیاست کی ہم آہنگی کی وضاحت کرنے سے گریز کرتے ہوئے سعودی عرب کو روس کے ساتھ جوڑنے کی کوشش کی جو ایسے وقت میں ہے کہ جب اگلے ماہ امریکی وسط مدتی انتخابات ہو رہے ہیں۔
جہاں تک "ایٹمی جنگ" کا تعلق ہے، تو یہ مذہب، توہم پرستی اور "آرماگیڈن" کو دعوت دے کر تاریخ اور قدیم سیاست کی ہم آہنگی میں یا صدر بائیڈن کے ذریعہ دنیا کے خاتمے میں داخل ہو چکی ہے۔ یہ سوچ وسیع و فعال انداز میں ایک بڑے طبقہ کے دل ودماغ میں پہلے ہی راسخ ہو چکی ہے، اور ان کا یہ ماننا ہے کہ دنیا کا خاتمہ "سوویت یونین" یا "روس" کے ساتھ ایٹمی جنگ کے ذریعے ہو گا۔ اس نظریہ کی یاد دہانی کے لیے جس پر بائیڈن نے بھروسہ کیا، گریس ہالسل نے اپنی کتاب "پروپیسی اینڈ پولیٹکس" میں ذکر کیا کہ مشنری پیٹ رابرٹسن نے ایک بار اپنے ٹیلی ویژن پروگرام کا آغاز - جسے امریکہ میں سولہ ملین سے زیادہ خاندان دیکھتے ہیں - یہ کہہ کر کیا کپ: "میں آپ کو یقین دلاتا ہوں کہ 1982 کے آخر تک زمین پر قیامت برپا ہو جائے گی، اور یہ قیامت بنیادی طور پر سوویت یونین میں ہوگی۔" اس نے ریورنڈ جیری فال ویل کو ان کے قول سے کیا کہ: "روس میں جاری حالیہ پیش رفت کے بارے میں حزقیال نبی نے کی تھی... یہ کیمونسٹ خدا سے نفرت کرنے والے لوگ ہیں... 2600 سال قبل عبرانی نبی حزقیال نے پیشین گوئی کی تھی کہ ایسی قوم مسیح کی دوسری واپسی سے کچھ دیر پہلے فلسطین کے شمال میں اٹھے گی... اور حزقیال میں ہم اس سرزمین کا نام روش پڑھتے ہیں۔ اس میں روش کے دو شہروں کے نام میشش اور توبال کا بھی ذکر ہے۔ یہ نام آج کے روس کے دارالحکومتوں ماسکو اور ٹیبلسک سے بالکل ملتے جلتے ہیں"... یہ دونوں تحریریں، طویل ہونے کے باوجود، اس رجحان کے قدیمی اور پھیلاؤ کی حد کو واضح کرتی ہیں، جس سے بائیڈن پہ یقین کیا جا سکتا ہے۔
اس سمفنی میں معیشت کو توانائی سے، اور میڈیا کو ہتھیاروں سے الگ کرتا ہے اور یہ تفصیلی اور لازوال انسانی نغموں کی عظیم ہم آہنگی کو تخلیق کرتے ہیں، آج دنیا کو جس چیز کی فکر ہے وہ یہ ہے کہ یہ بڑھاوا "مغرب" کی طرف سے ہوا ہے، جہاں جنگوں کی تاریخ، تباہ کن اور بدصورت ہے، جہاں پہلی اور دوسری عالمی جنگیں ہیں، جہاں پوری تاریخ اور سیاست میں ایٹمی ہتھیاروں کا واحد استعمال جاپان کے خلاف کیا گیا۔ آخر میں، جب شاندار حکمت عملی والے ذہنوں سے ذہانت اور حکمت غائب ہوتی ہے اور وہ نظریاتی پرجوش افراد سے پیچھے رہ جاتے ہیں جو "تاریخ اور سیاست کی سمفنی" کو پڑھنا نہیں جانتے، تو دنیا شدید خطرے میں آ جاتی ہے۔

اتوار - 14 ربیع الاول 1444 ہجری - 09 اکتوبر 2022 ء  شمارہ نمبر [16021]