صالح القلاب
TT

عرب... یہ ہے حقیقت اور مشترکہ مفادات!

یہ امر غیر متوقع ہے کہ لبنانی "حزب اللہ" کے سیکرٹری جنرل حسن نصر اللہ مملکت سعودی عرب کو "دوستانہ نظروں سے" دیکھیں؛ لہٰذا دوستانہ نظر "یقیناً" ایرانی رہنما علی خامنہ ای کے لیے مخصوص ہے۔ وہ حیران ہیں کہ انہی کی طرح کے لوگ کیسے ریاض کی طرف محبت اور دوستانہ نگاہوں سے دیکھ سکتے ہیں اور جمہوریہ ایران... اور خمینی تہران سے دشمنی اختیار کر سکتے ہیں!!
یہاں، یہ توقع نہیں کی جا سکتی تھی کہ حسن نصر اللہ مملکت سعودی عرب کی جانب دوستانہ نظروں سے دیکھیں گے؛  کیونکہ "دوستانہ" نظر  تہران میں فقیہی ولی کے لئے ہیں... اور ہر جگہ ان کے پیروکاروں کے لئے ہیں، یقیناً ان پیروکاروں سے مراد شیعہ اسلامی مکتب فکر کے پیروکار نہیں ہیں، جن کے لئے تمام تعریفیں... محبت اور احترام بھی ہے۔
"شیخ" حسن نصراللہ کو یہ زیب نہیں دیتا تھا کہ وہ سیاہ عمامے کو اس حد تک گرا دیں، اور یہ کہیں کہ مملکت سعودی عرب کو دوستی کی نظر سے دیکھنا ممکن نہیں... ان کے نزدیک دوستی کی نظر "شدید خوف" سے متاثر ہے، جو صرف سپریم لیڈر علی خامنہ ای کی نظر کے زاویے سے ہی دیکھ سکتی ہے۔ رہی بات حسن نصراللہ کے مسئلہ کی تو انہیں سیاہ عمامے کا خیال کرتے ہوئے مملکت سعودی عرب کی طرف دوستی اور محبت کی نگاہ سے دیکھنے والوں پر الزام نہیں لگانا چاہیے تھا، کیونکہ یہ وہ ملک ہے کہ جس کے سخاوت بھرے ہاتھ دنیا کے چاروں اطراف میں ہر ضرورت مند مسلم اور غیر مسلم کے لئے پھیلے ہوئے ہیں۔
حیرت کی بات یہ ہے کہ حسن نصراللہ، جو کہتے ہیں کہ وہ سعودی عرب کو دوستانہ نظروں سے نہیں دیکھ سکتے، ایرانی سپریم لیڈر علی خامنہ ای کی صحت پر توجہ مرکوز کیے ہوئے ہیں... حالانکہ یہ سچ نہیں ہے کہ ایران عراقی رافدین کے تیل کے لیے کوئی لالچ نہیں رکھتا۔
یہاں، سیاہ عمامے والے اس شخص کو یہ حق نہیں کہ وہ بھرے منہ سے کہے کہ پراسرار حالات میں مرنے والی لڑکی کی خاطر دنیا کو اٹھنے یا بیٹھنے کا کوئی حق نہیں ہے۔ حالانکہ سب جانتے ہیں کہ یہ لڑکی پراسرار طور پر نہیں مری، اسے (یعنی نوجوان خاتون مہسا امینی) کو نام نہاد اخلاقیات پولیس نے روکا، جیسا کہ اس کے بارے میں کہا جاتا ہے کہ اس میں ذرہ برابر بھی اخلاق نہیں ہے۔
یہاں بات ہے کہ حسن نصر اللہ کو سیاہ عمامے کا استعمال نہیں کرنا چاہیے تھا اور اس جرم کا جواز اور دفاع کرتے ہوئے یہ نہیں کہنا چاہئے تھا کہ: دنیا ایک ایسی ایرانی لڑکی کے لئے اٹھی ہے جو پراسرار حالات میں مر گئی۔ بلاشبہ یہ ایرانی لڑکی غیر معروف نہیں تھی اور اس کی موت پراسرار حالات میں نہیں ہوئی، کیونکہ یہ بات ضرور ہے کہ حسن نصر اللہ اسے یقینی طور پر جانتے ہوں گے۔ حسن نصر اللہ کو نظریں نہیں پھیرنی چاہیے تھیں اور اپنے کانوں، آنکھوں اور دل کو بھی اپنے سیاہ عمامے سے نہیں ڈھانپنا چاہیے تھا، اور عمامہ پہنے ہوئے یہ دعویٰ کرتے کہ یہ ایرانی لڑکی پراسرار حالات میں مر گئی ہے!!
یہ بات معروف ہے کہ اس نوجوان خاتون، مہسا امینی کو اخلاقیات پولیس (کونسی اخلاقیات؟) نے روکا تھا جس کا کہنا ہے کہ وہ اپنی ظاہری شکل سے ایرانی اسلامی قوانین کا نفاذ نہیں کر رہی تھی... البتہ یہ معلوم نہیں کہ وہ کس ظاہری صورت کی بات کر رہے ہیں!!
عجیب بات ہے... نہیں، بلکہ حیرت کی بات یہ ہے کہ حسن نصراللہ جنہیں حق کا دفاع کرنا چاہئے تھا وہ یہ سمجھتے ہیں کہ یہ لڑکی پراسرار حالات میں مر گئی اور یہ کہ ایران میں اسلامی قوانین کے اطلاق سے متعلق اخلاقی پولیس نے انہیں ان کی ظاہری شکل کی وجہ سے روکا تھا!!
سیاہ عمامے سے اپنے سر کو ڈھانپنے والے حسن نصر اللہ کو حق کے ساتھ کھڑا ہونا تھا اور اس کا دفاع کرنا چاہئے تھا اور یہ نہیں کہنا تھا کہ ایک پراسرار واقعے سے فائدہ اٹھایا گیا (کونسا پراسرار؟)، اور لوگوں کو "سڑکوں" پر نکالا گیا...!! "اس مسئلہ کے لئے ایک ہزار... دو ہزار افراد نکلے... اور ان میں سے کچھ نے فساد کیا... حملے کئے اور قتل کئے۔"
یہ واقعہ بالکل بھی مبہم نہیں تھا جیسا کہ "حزب اللہ" لبنان کے سیکرٹری جنرل حسن نصر اللہ نے کہا اور دعویٰ کیا۔یہی چیز ہے جس نے اسے بدل دیا۔ ایسا لگتا ہے کہ ان کے ایرانی بھائیوں اور رہنماؤں نے انہیں سعودی عرب کو نشانہ بنانے کا کام سونپا ہے، جس کے بارے میں  "حزب اللہ" کے سیکرٹری جنرل نے کہا کہ اسے دوستانہ نظروں سے نہیں دیکھا جا سکتا۔
یہاں، یقیناً ہر کوئی جانتا ہے، یعنی قریب و نزدیک والے کہ مقصد مملکت سعودی عرب کو نشانہ بنانا ہے؛ حسن نصراللہ سے جب پوچھا گیا، تو ان کو لبنانی اقدار جو دوست اور غیر دوست سب کے لیے کھلی ہیں، ان روایات کا پاس کرنا چاہئے تھا اور ٹیلی ویژن پر "گرجتی" تقریر میں یہ نہیں کہنا چاہئے تھا کہ: "سعودی عرب کو عام لوگ کیسے دوستی اور محبت کی نظر سے دیکھ سکتے ہیں جب کہ وہ اس اسلامی جمہوریہ ایران سے عداوت کر رہا ہو جس نے عراق کو آزاد کرانے کے لیے سب کچھ کیا"... درحقیقت اس نے اُس عرب ملک کو تباہ کرنے کے لیے سب کچھ کیا، جس کا پوری عرب قوم میں ایک مضبوط مقام ہے۔ لہٰذا ایرانی عوام کی قدردانی اور احترام کے ساتھ یہ معلوم ہوتا ہے کہ یکے بعد دیگرے آنے والی ایرانی حکومتیں، جن میں یقیناً یہ عمومی نظام بھی شامل ہے جو اب رائج ہے، عربوں اور حتی کہ ان میں سے شیعوں کے لیے بھی سخت دشمنی اور نفرت رکھتا ہے، یہ سب کچھ واضح کرتا ہے جو ہم اب دیکھ رہے ہیں، اور یہ چیز شہنشاہی دور میں بھی تھی اور اس عمومی عہد میں بھی حتی کہ یہ پچھلے اور بعد کے تمام ادوار میں پائی جاتی ہے۔
یقیناً اس سے مراد یہ یکے بعد دیگرے نظام ہیں، کیونکہ ایرانی عوام برادرانہ ہیں اور انہیں عرب قوم کے ساتھ جمع کرنے والے امور اس سے کہیں زیادہ ہیں جو انہیں اس سے دور کرتی ہے... یہاں، بلاشبہ ان تمام رجحانات کی حمایت کرنے والی قوتوں کا ارتکاز ممکن ہے جو عوام کے مشترکہ مفادات کی بنیاد پر عرب - ایران مستقبل کو امید افزا بنا سکتی ہیں۔
یہاں جو بات یقینی ہے وہ یہ ہے کہ یہ موجودہ حقائق مفادات کی حقیقتیں ہیں اور یہ کہ تاریخ کی حرکت سے  وہ برا ماضی گزر چکا ہے، قومیں اور عوام مشترکہ اور متحد مفادات بن چکے ہیں... اب ان دونوں برادار عوام؛ عرب قوم اور ایرانی قوم میں وہ دشمنی نہیں رہی۔

جمعرات - 11 ربیع الاول 1444 ہجری - 06 اکتوبر 2022ء