عبد المنعم سعید
TT

سمرقند میں جو کچھ ہوا اس کے متعلق!

ان دنوں فکری اعتبار سے سب سے زیادہ پریشان کن اور قابل تشویش بات بڑی تعداد میں وہ پیش رفتیں ہیں جو منطق اور درجہ بندی کی گردش میں ایسا خسارہ پیدا کر دیتی ہیں کہ ذہن مفلوج ہو جاتا ہے، آنکھ بھٹک جاتی ہے اور بصیرت خراب ہوتی ہے۔ کرہ ارض کو مسلسل خطرات لاحق ہیں جو کہ سیلاب، بڑھتے ہوئے درجہ حرارت اور جھیلوں کے خشک ہونے کے ساتھ جان لیوا شکلوں میں ظاہر ہوتے ہیں؛ جتنا انتشار ملکوں اور خطوں کے درمیان چلتا ہے اور دہشت گردی جھپٹنے کے لمحے کے انتظار میں کھڑی ہے۔ بلاشبہ یوکرین کی جنگ اپنے اندر ہونے والی پیش رفت سے ہمیں حیران کرنے سے باز نہیں آتی، جس کا آغاز سرحدوں پر روسی ہجوم کے بحران سے ہوا، پھر یہ ہجوم براہ راست حملے کی صورت اختیار کر گیا یہاں تک کہ یہ حملے دارالحکومت (کیف) تک پہنچ گئے۔ لیکن اپنی ایڑیوں کے بل واپس لوٹے اور اس کے ساتھ یوکرین کی حکومت بدلنے اور اسے غیر مسلح کرنے کا خیال بھی ختم ہو گیا۔
پسپائی کے ساتھ ہی اہداف دونباس کے علاقے کی جانب اور پھر جنوب کی طرف اوڈیسا کی سمت بدل گئے۔ لیکن مغربی تکنیک اور انٹیلی جنس امداد سے تقویت یافتہ یوکرین نے شمال مشرق اور جنوبی سمت میں جوابی حملہ جاری رکھا، جس سے روسی حملے روکے نہیں بلکہ پسپا ہوگئے اور یوکرین نے خارکیف میں فتح حاصل کر لی، جو بہت سے لوگوں کے لیے روسی شکست کا اعلان کرنے کے لیے کافی تھا۔ ان عالمی پیچیدگیوں اور جوڑ توڑ کے درمیان یہ سوال کرنا خارج از امکان نہیں ہے کہ کیا "COVID-19" ابھی بھی باقی ہے، یا یہ آخری سانسیں لے رہا ہے، یا یہ وبا اپنے اختتام کو پہنچ چکا ہے۔
عالمی ڈھانچے نے دنیا کے اکثر ممالک کو "غیر یقینی صورتحال" سے متاثر کیا اور توانائی، خوراک اور دیگر تمام اشیاء میں عالمی بحران پیدا کرنے کے لیے شکوک و شبہات کافی پیدا ہو چکے ہیں، چنانچہ بہت سے ممالک میں معاشی بحران اور مہنگائی کے ساتھ ساتھ یہ سوال کیا جاتا ہے کہ حکومتیں کب گریں گی، خانہ جنگیاں کب شروع ہوں گی؟ اس سب کے درمیان جب اس سال 15 اور 16 ستمبر کو شنگھائی تعاون تنظیم کی بین الاقوامی کانفرنس ازبکستان کے تاریخی شہر سمرقند میں منعقد ہوئی اور اس میں 24 ممالک نے شرکت کی؛ جن میں روس اور چین بھی تھے، اس سوال کے ساتھ حیرت ہوتی ہے کہ: مذکورہ بالا تمام صورت حال کے درمیان کیسے تعاون کی امید کی جا سکتی ہے؟ سوال یہ ہے کہ کیا یہ ایک قسم کی پولرائزیشن ہے جو سمرقند میں جمع ہونے والے لوگوں کو ایک طرف رکھتی ہے اور رہاست ہائے امریکہ اور اس کے مغربی کیمپ دوسری جانب!
"سمرقند اجلاس" میں زیادہ قابل توجہ بات چینی صدر شی جن پنگ کی تقریر تھی، جنہوں نے "خوبصورتی" کو دنیا کے ضروری معیاروں میں شامل کیا، جس  کا عنوان تھا: "جدید رجحان کی پاسداری، یکجہتی اور تعاون کا فروغ، اور ایک خوبصورت مستقبل بنانا۔" اس کے بعد اقوام متحدہ کے معروف اصولوں سے ماخوذ تجاویز کی دنیا آتی ہے، اس کے علاوہ، بین الاقوامی تعاون کی خواہشات، شریک ممالک کے اندرونی معاملات میں مداخلت کئے بغیر، چاہے وہ تنظیم کے مکمل رکن ہوں یا تنظیم کے مذاکرات میں شریک ممالک۔(...)

بدھ - 3 ربیع الاول 1444 ہجری - 28 ستمبر 2022ء شمارہ نمبر [16010]