عثمان ميرغني
TT

پوٹن اور ایٹمی آپشن!

یوکرین میں روسی افواج کی ناکامی کے بعد آنے والے دنوں اور ہفتوں میں کیا ہو سکتا ہے اس کا اندازہ لگانا آسان نہیں ہے۔ مغرب میں بہت سے لوگوں نے روس کو تذلیل کے خطرے سے خبردار کیا تھا لیکن اب دنیا کو اس خطرے کا سامنا ہے جو خارکیف کے علاقے میں روسی افواج کو ملنے والی شکستوں کے بعد پہلے سے زیادہ سنگین ہو گیا ہے۔ سوال یہ پیدا ہو گیا ہے کہ کیا ان شکستوں سے ایٹمی جنگ کے خطرات بڑھ گئے ہیں؟
کل تقریباً 7 منٹ تک جاری رہنے والی اپنی تناؤ بھری تقریر میں روسی صدر ولادیمیر پوٹن نے ایک بار پھر ایٹمی ہتھیاروں اور روس کے فوجی ہتھیاروں میں تباہی کے تمام ذرائع کا ذکر کرتے ہوئے دھمکی دی کہ وہ مذاق نہیں کر رہے۔ انہوں نے مغرب کو مورد الزام ٹھہراتے ہوئے کہا کہ اس نے یوکرین کو جدید ہتھیاروں کے نظام فراہم کر کے "تمام خطوط عبور کر لئے ہیں" اور مغرب کا مقصد "روس کو کمزور کرنا، تقسیم کرنا اور بالآخر تباہ کرنا" ہے۔
اس بار جو چیز خطرے کو زیادہ سنگین بناتی ہے وہ یہ ہے کہ پوٹن اپنے آپ کو ایک تنگ کونے میں دبا ہوا پاتے ہیں۔ یوکرین میں روسی جنگ نے ہتھیاروں اور فوجی منصوبوں میں کمزوریوں کا انکشاف کیا، اور کریملن کو اندرونی اور بیرونی طور پر شرمندہ کیا۔ گزشتہ ہفتے شنگھائی تعاون تنظیم کے سربراہی اجلاس میں، جو ازبکستان میں منعقد ہوا، پوٹن نے یہ براہ راست محسوس کیا جب بھارتی وزیر اعظم نریندر مودی نے یوکرین کی جنگ پر کھلے عام تنقید کرتے ہوئے کہا کہ "موجودہ دور جنگ کا دور نہیں ہے۔" اسی طرح پوٹن  نے بھی یہ اعتراف کیا کہ چینی صدر شی جن پنگ کو اس جنگ کے بارے میں "سوالات اور خدشات" ہیں۔
اور اگر روسی صدر کو مزید اشارے کی ضرورت ہے کہ یوکرین میں ان کی افواج کی پسپائی ان کے اثر و رسوخ کو متاثر کرنے لگی ہے، تو بلاشبہ انہیں آرمینیا اور آذربائیجان کی سرحد پر حالیہ فوجی جھڑپوں سے حاصل ہوا ہے، جس نے ایک واضح پیغام دیا، کہ ماسکو کے بعض ہمسایہ ممالک کو روس کی کمزوری محسوس ہونے لگی ہے اور اس کا فائدہ اٹھاتے ہوئے انہوں نے اپنی لڑائیاں دوبارہ شروع کر دیں ہیں جو انہوں نے پہلے ماسکو کی مداخلت کے بعد منجمد کر دی تھیں۔
پوٹن پر دباؤ بڑھا اور اس کے ساتھ ہی جنگ کے اثرات اندرونی طور پر تنقید کی صورت میں ظاہر ہونے لگے، خواہ یہ جنگ کے مخالفین کی طرف سے ہوں یا سخت گیر قوم پرستوں کی طرف سے، جو روس سے مطالبہ کرتے ہیں کہ وہ اضافی افواج بھیج کر اور ایک جامع تحرک کا اعلان کر کے جنگ میں اپنی فوجی صلاحیتوں کا زیادہ سے زیادہ استعمال کرے۔ میڈیا نے روسی چینل RT کی چیف ایڈیٹر مارگریٹا سائمونیان کے حوالے سے کہا کہ اس سے مستقبل میں ہونے والی پیش رفت کے بارے میں تشویش میں اضافہ ہوگا، اور یہ کہ انہوں نے کہا کہ "جو کچھ ہو رہا ہے، اور کیا ہونے والا ہے، اس بات کا اندازہ اس ہفتے میں ایسے لگایا جا سکتا ہے کہ یا تو ہم بہترین فتح کی دہلیز پر ہیں یا ایٹمی جنگ کے دہانے پر۔ مجھے کوئی تیسرا آپشن نظر نہیں آتا۔"
اقتصادی طور پر بھی، یورپ کو گیس کی ترسیل میں کمی اور مغربی پابندیوں کے اثرات سے ماسکو پر دباؤ بڑھا ہے، جس کا مطلب ہے کہ روسی شہری اگلے چند ہفتوں اور مہینوں میں جنگ کے اثرات کو تیزی سے محسوس کریں گے چاہیے یہ معاشی لحاظ سے ہو یا پھر اپنے مزید بیٹوں کو یوکرین میں لڑنے کے لئے بھیجے جانے سے۔
اس جمع شدہ دباؤ کی روشنی میں پوٹن نے کل دوسری جنگ عظیم کے بعد روس میں پہلی بار متحرک ہونے کا اعلان کیا، اگرچہ یہ تحرک جزوی تھا۔ اس فیصلے کے تحت ریزرو فورس سے تقریباً 3 لاکھ اضافی جنگجوؤں کو بلایا جائے گا جو ہتھیار اٹھانے کا سابقہ ​​تجربہ رکھتے ہیں۔ روسی پارلیمنٹ نے فوج سے فرار ہونے یا لڑنے سے انکار کرنے اور اجباری بھرتی سے بچنے پر سخت سزاؤں کا بل منظور کر کے اس کی راہ ہموار کی تھی۔
اس نئے فیصلے کے نفاذ سے یوکرائنی جنگ میں حصہ لینے والی روسی افواج کی تعداد تقریباً نصف ملین ہو جائے گی، ان میں ڈونباس میں قوم پرست علیحدگی پسندوں کی افواج بھی شامل ہیں جو 7 سال سے زیادہ عرصے سے کیف سے لڑ رہی ہیں۔ لیکن اس سے بھی زیادہ اہم اور خطرناک پوٹن کی دھمکی ہے کہ وہ ایٹمی ہتھیاروں سمیت اپنے پاس موجود دیگر تمام بڑے پیمانے پر تباہی پھیلانے والے ہتھیاروں کو استعمال کریں گے۔
جوہری ہتھیار کے لہرانے کو عموما چھوٹے ٹیکٹیکل ایٹمی ہتھیاروں کے خطرے کے طور پر دیکھا جاتا ہے نہ کہ بڑے روایتی بموں سے۔ ان ٹیکٹیکل ہتھیاروں کا اثر اس علاقے کے آس پاس تک محدود رہتا ہے جس میں یہ استعمال ہوتے ہیں، اور انہیں جوہری ڈیٹرنٹ کے طور پر دیکھا جاتا ہے نہ کہ  روایتی ایٹمی بموں کی وجہ سے ہونے والی بڑے پیمانے پر تباہی کے لیے۔ خیال کیا جاتا ہے کہ روس کے پاس ہزاروں کی تعداد میں اس قسم کے ہتھیار ہیں اور وہ انہیں جدید روایتی ہتھیاروں میں نیٹو کی طاقت کا نعم البدل شمار کرتا ہے۔ بہرصورت اس قسم کے ہتھیاروں کے استعمال کا مطلب جنگوں میں اس ممنوعہ حد کو توڑنا ہے جو آخری بار 77 سال قبل ہیروشیما اور ناگاساکی میں جوہری ہتھیار استعمال کر کے توڑی گئی تھی۔ اس سے معاملات مزید بگڑنے اور یوکرینی جنگ کے روس اور مغرب کے درمیان پراکسی وار سے براہ راست اور وسیع جنگ کا خطرہ پیدا ہوتا ہے، جس کے نتائج پوری دنیا کے لئے سنگین ہیں۔
پوٹن پر بڑھتے ہوئے دباؤ کے علاوہ آج کی روسی دھمکیوں کو جو مزید سنگین بناتا ہے وہ یوکرائن کے 4 علاقوں میں اس سال 23 سے 27 ستمبر کے درمیانی عرصہ میں ہونے والے ریفرنڈم کا مرحلہ ہے، ان علاقوں میں ڈونیٹسک، لوہانسک، کھیرسن اور زاپوریزہ شامل ہیں۔ اس ریفرنڈم کا مطلب یوکرین کے 15 فیصد رقبے پر محیط ان علاقوں کو روس میں ضم کرنا ہے۔ یہ قدم ماسکو کو، دونباس کے علاقوں پر یوکرین کے حملوں کو روسی سرزمین پر جارحیت اور ریاست کے لیے خطرہ سمجھنے کا بہانہ اور  اسے اپنی مزید افواج کو میدان جنگ میں بھیجنے اور خطرے کا جواب دینے کے لیے "ہر دستیاب ذرائع" استعمال کرنے کی اجازت فراہم کرے گا۔ پوٹن نے کل اپنی تقریر میں اسی جانب اشارہ کرتے ہوئے مغرب کو دھمکی دی کہ وہ مذاق نہیں کر رہے اور ان کے الفاظ دھوکہ نہیں ہیں۔
ایسے لوگ بھی ہیں جن کی رائے میں پوٹن یوکرین کو ڈرانے اور اسے دوبارہ مذاکرات کی میز پر دھکیلنے کے لیے بڑے پیمانے پر تباہی پھیلانے والے ہتھیاروں کی دھمکیوں کا استعمال کر رہے ہیں۔ دریں اثنا، مغرب کو عبرتناک پیغام بھیجنے کے جواب میں ان کا یوکرین کو بڑے پیمانے پر فوجی تعاون فراہم کرتے ہوئے توازن بدل دیا گیا اور میدان جنگ میں روس کو بھاری نقصان اٹھانا پڑا۔ یہ لوگ دھمکیوں کو محض ایک مایوس کن ہتھکنڈے کے طور پر دیکھتے ہیں جسے نظر انداز کیا جا سکتا ہے، کیونکہ روسی صدر ٹیکٹیکل جوہری ہتھیار یا کسی اور تباہی والے ہتھیاروں کا استعمال نہیں کریں گے کیونکہ وہ جانتے ہیں کہ اس کی انہیں بھاری قیمت ادا کرنی پڑے گی۔ کیونکہ وہ اور ان کے متعدد ذمہ داروں نے پہلے بھی کئی بار اس بارے میں دھمکیاں دی تھیں مگر یہ معاملہ صرف میڈیا تک محدود رہا۔ اس نے یوکرین کے لئے مغرب کی تیز رفتار امداد کو نہیں روکا اور نہ ہی اسے جدید ہتھیاروں کی فراہمی سے روک سکا، جس سے روسی ہتھیاروں میں خامیاں اور کچھ میں پسماندگی آشکار ہوئی۔ جیسا کہ ماسکو کی فوجی منصوبہ بندی کے مسائل آشکار ہوئے۔
ان ہتھیاروں کا استعمال یقیناً پوٹن کے لیے بڑے خطرات کا باعث ہے، کیونکہ اس سے روس کی تنہائی لامحالہ بڑھے گی اور وہ اپنے باقی اتحادیوں جیسے چین اور بھارت کی ہمدردی کھو سکتا ہے اور اسے سخت مغربی پابندیوں کا سامنا کرنا پڑ سکتا ہے۔ اس کے علاوہ، یہ کچھ مغربی ممالک کے لیے یوکرین کو مزید ہتھیار اور شاید فوجی بھیجنے کا بہانہ بھی فراہم کر سکتا ہے۔
مسئلہ یہ ہے کہ کوئی نہیں جانتا کہ پیوٹن کس حد تک جاسکتے ہیں اگر وہ یہ محسوس کرتے ہیں کہ ان کے وژن کے مطابق روس کو جنگ سے خطرہ ہے۔ پوری دنیا کے اندازوں کو چھوڑ کر صرف پوٹن ہی جانتے ہیں کہ آیا یہ محض ایک چال تھی یا وہ ایٹمی تباہی کی دہلیز پر جا رہے ہیں۔

جمعرات - 26 صفر 1444 ہجری - 22 ستمبر 2022ء شمارہ نمبر [16004]