عبد المنعم سعید
TT

تتلی اور دنیا کی حالت

کہا جاتا ہے کہ اگر تتلی مشرق میں جاپان میں اپنے پر پھڑپھڑاتی ہے تو اس کے اثرات مغرب میں میکسیکو تک پہنچ جاتے ہیں۔ نظریاتی طور پر، یہ درست ہے؛ کیونکہ اس کے گردونواح میں پھڑپھڑانے کا اثر کمزور اور دھندلے قدموں کے ساتھ تیزی سے حرکت کرنا شروع کر دیتا ہے، ہاں، لیکن اگر یہ زیادہ ہو جائے تو یہ موثر ہو جاتا ہے۔ ہم نے یہ تتلی سے چھوٹی چیز سے جانا ہے جب ایک معمولی "وائرس" سیارے کو متاثر کرنے اور پوری دنیا کو واقعات اور تبدیلیوں کے ایک نئے مدار میں ڈالنے کے لئے سامنے آیا لیکن دنیا اب بہت سے متغیرات کا مشاہدہ کر رہی ہے جو محدود معلوم ہوتے ہیں، یا ایک تنگ علاقائی فریم ورک میں نظر آرہے ہیں، لیکن انفیکشن جیسے ہی شروع ہوتا ہے اس کے نتیجہ میں مہلک واقعات کا ایک سلسلہ شروع ہو جاتا ہے اور ہمارے عرب خطے میں ہمیں بہت زیادہ نگرانی کی ضرورت ہے اور یہ تجزیہ سے زیادہ نہیں ہے اور اس سے بڑھ کر مفادات کے توازن کو مستحکم کرنے کی ضرورت ہے جس سے مثبت منافع حاصل ہو سکے۔ مثال کے طور پر دیکھیں کہ تتلی کے پھڑپھڑانے سے زیادہ کیا چیز ہے جب شمالی ایران میں ایک لڑکی کا پردہ ہٹ جاتا ہے اور اخلاقی پولیس اسے ایک سخت تفتیش میں لے جاتی ہے جو اس کی موت کا سبب بنتی ہے - خدا اس پر رحم کرے -  اس واقعے نے ایران کے اندر بڑے اثرات پیدا کئے ہیں اور ایسے مظاہرے ہوئے جس میں خواتین نے اپنے بال کٹوائے جبکہ مردوں نے نعرے لگائے کہ تبدیلی کا وقت آگیا ہے اور ان میں سرفہرست مرشد عام ہیں اور جب ایسا ہوا تو ظلم وجبر ایک حقیقت بن کر سامنے آیا اور میرے لکھنے کے وقت تک بھی اس کا اثر افی گہر ہے اور عراق میں جس نے ایران کے ساتھ تعلقات کو اچھا کیا ہے وہ بھی اس ایرانی حقیقت سے دور نہیں ہے؛ کیونکہ وہاں  - خاص طور پر کرد علاقے میں - لڑکی اور اس کے غمزدہ خاندان کے ساتھ ہمدردی دکھائی گئی ہے اور ایرانی ریاست میں تشدد کے بارے میں عراقی شیعہ حلقوں میں بے چینی اور تناؤ پیدا ہوا ہے اور ایران کی طرف سے سوائے عراق پر بمباری کے اور کچھ نہیں ہوا ہے ہے جو ایک آزاد اور خودمختار ملک ہے۔ پوری دنیا میں ایرانی اقلیتیں ایرانی رویے کے خلاف احتجاج کے لئے سڑکوں پر نکل آئے ہیں اور ان کے ساتھ عوام کی ہمدردیاں بھی رہی ہیں جنہوں نے دنیا میں خواتین کے خلاف ہونے والے حملے اور امتیازی سلوک کو توجہ کی نگاہ سے دیکھا ہے۔

پوری دنیا کے حقائق ایک عورت کے قتل کا نہیں ہیں بلکہ ان میں سے کچھ میں یہ ایک اجتماعی قتل ہے اور یہ یوکرین میں بھی ہو رہا ہے جہاں جنگ جاری ہے لیکن یہ اس وقت کشیدگی کی نئی حدوں میں داخل ہو گیا ہے جب یوکرین نے "کیرچ" پل کو اڑا دیا جو قرم اور روسی سرزمین کو جوڑتا ہے اور اس وجہ سے روسی ردعمل بھی یوکرین کے دارالحکومت اور شہروں کی سمت شہریوں اور فوجیوں میں فرق کئے بغیر پرتشدد انداز میں آیا ہے سیاسی پیغامات گرم ہوتے گئے یہاں تک کہ صورتحال بہت جلد جوہری حدالت تک پہنچ گئی اور سب کو کیوبا کے میزائل بحران کی یاد آگئی جس میں جان ایف کینیڈی نے کہا تھا  کہ ایٹمی عالمی جنگ کا امکان تین میں سے ایک ہے اور اس بار کسی نے ابھی تک امکانات کی پیمائش نہیں کی ہے، لیکن روسی دھمکیاں زیادہ واضح نظر آئی ہیں جیسا کہ چیچن فوجی رہنما رمضان قادروف نے روسی قیادت سے ٹیکٹیکل جوہری ہتھیار استعمال کرنے کا مطالبہ کیا ہے اور اس کے بعد اس حوالے سے بیانات سامنے آنے لگے اور اس سلسلہ میں امریکی ردعمل یہ آیا کہ اس نے روسی فریق کو بتا دیا ہے کہ جب یہ میزائل استعمال ہوں گے تو حالات کیا ہوں گے۔

لیکن روس اور یوکرین کی جنگ کبھی بھی دونوں فریقوں تک محدود نہیں رہی ہے جب اس نے روس پر مغربی اقتصادی پابندیوں کے زیر اثر اپنے بازو کو براہ راست تصادم تک پھیلا دیا اور یہ بھی اس وقت جب روس نے خاص طور پر مغربی اور یورپی ممالک کے خلاف تیل کا ہتھیار استعمال کیا پھر یہ معاملہ عالمی سپلائی چینز پر ایک منفی اثرات کے ذریعے فوری طور پر باقی دنیا تک پھیل گیا اور عالمی افراط زر اپنے عروج پر پہنچ گیا اور اگلی کساد بازاری کی بات اتنی ہی سختی سے ہونے لگی جتنی کہ اگلے موسم سرما کی گفتگو ہوتی ہے۔ ابھی دنیا انتہائی مایوسی کی حالت میں جی رہی ہے جبکہ کوئی بھی ملک اپنے مستقبل کے کل کو نہیں جانتا ہے اور یہ مظاہرے برلن، ویانا اور پراگ جیسے دارالحکومتوں میں اونچی قیمتوں کی وجہ سے ہونے لگے ہیں جو ایک عرصے سے ان کے عادی نہیں تھے۔ جنگ نے ماحولیاتی تبدیلی اور گلوبل وارمنگ جیسے اہم عالمی مسائل کو ایک طرف رکھ دیا ہے جس کے بارے میں سوچا جاتا تھا کہ یہ انسانیت کو متحد کر دے گا، لیکن جب بات سفارتی میز پر آئی تو دنیا کافی حد تک منتشر ہو گئی۔

جنگ نے بین الاقوامی سطح پر حساسیت کی ایک اعلیٰ کیفیت پیدا کر دی ہے۔ عام اوقات میں تنظیم "اوپیک" یا یہاں تک کہ "اوپیک پلس" کے فیصلوں کا طرز عمل ایسے معاشی فیصلے ہوتے ہیں جو طلب اور رسد اور پیدا کنندگان اور صارفین میں توازن پیدا کرتے ہیں اور یہ سچ ہے کہ اکتوبر 1973 کی جنگ میں عربوں نے تیل کے ہتھیار کو عرب اسٹریٹجک اہداف کی تکمیل کے لئے استعمال کیا تھا اور روس نے موجودہ جنگ میں اس ہتھیار کو یورپ پر دباؤ ڈالنے کے لئے استعمال کیا ہے، تاہم، موجودہ معاملے میں مذکورہ بالا اداروں کو معلوم ہے کہ تیل کی قیمتوں میں اضافہ (فی بیرل 100 ڈالر سے اوپر) یا کمی (فی بیرل 30 ڈالر سے نیچے) میں تیل کا بڑا کردار ہے۔ ان اداروں میں پختگی کی وجہ سے سب کو مناسب قیمتوں کی تلاش ہے؛ لہذا قیمتیں بڑھنے پر پیداوار بڑھ جاتی ہے اور اگر اس کے برعکس ہو تو پیداوار میں کمی واقع ہوتی ہے اور جب "اپیک پلس" کا فیصلہ 20 لاکھ بیرل کی پیداوار کم کرنے کے لئے جاری کیا گیا تو اس کا مقصد قیمتوں کو موجودہ قیمتوں سے پیچھے ہٹنے سے روکنا تھا جو 80 ڈالر فی بیرل کے گرد گھومتی ہیں، لیکن ریاست ہائے متحدہ امریکہ جو ہمیشہ طلب و رسد اور اقتصادی منڈی کے قوانین کا محافظ ہے اس نے نہ صرف ان فیصلوں پر احتجاج کیا ہے بلکہ دردناک ردعمل کا عزم کیا ہے جس کی وجہ سے کئی بحرانوں میں ایک اضافی بحران کا اضافہ ہو گیا ہے۔

درحقیقت اوپیک پلس کے فیصلوں اور لبنان اور اسرائیل جیسے ممالک کے درمیان سمندری سرحدوں کی حد بندی کے معاہدے میں تمام سابقہ ​​رکاوٹوں کے باوجود ان کے درمیان تعلق پیدا کرنا مشکل ہے اور معاہدے کے مطابق کریش کا میدان اسرائیل کی جانب مکمل ہو گیا ہے اور دوسری طرف اس نے "قنا" فیلڈ پر لبنان کے کنٹرول کی ضمانت دی ہے جو دونوں اطراف کو الگ کرنے والی حد بندی کی لکیر سے آگے ہے؛ لہٰذا، ایک تصفیہ اس شرط پر کیا گیا ہے کہ لبنان اپنے میدان سے ہونے والی آمدنی کا 17 فیصد اسرائیلی فریق کو فراہم کرے گا۔ یہ معاہدہ بہت سی معروف رکاوٹوں کی موجودگی کے باوجود ہوا ہے جو ہمیشہ درج کی جاتی رہی ہیں کیونکہ وہ صرف معاہدے کی راہ میں حائل نہیں ہیں بلکہ پورے عرب اسرائیل تنازعات کے حل کی راہ میں حائل ہیں۔ اسرائیل اب بھی مختصر عرصے میں پانچویں انتخابات کی صورت میں اپنے سیاسی انحطاط کے سامنے کھڑا ہے اور انتخابی مہمات کے درمیان اس طرح اسٹریٹجک معاہدے پر دستخط کرنے کی مخالفت کے باوجود اس معاہدے پر دستخط کیے بغیر دو فریقین کے درمیان امن قائم کیا گیا ہے۔(۔۔۔)

بدھ 24 ربیع الاول 1444ہجری -  19 اکتوبر   2022ء شمارہ نمبر[16031]