عبد الرحمن الراشد
TT

ریاض میں مقتدی الصدر کا استقبال

 

عراق کے اندر زندگی کے ہر میدان میں ایرانی حکومت کی دسترس کا مشاہدہ واضح انداز میں کیا جا رہا ہے، تجارت، فن تعمیر، ناقص مصنوعات کے میدان سے لے کر بینک، حکومت، پارلیمنٹ اور پارٹیوں تک تمام چیزوں پر انہیں کا دسترس ہے اور جیسا کہ نیو یارک ٹائمز میگزین نے حالات کی تصویر کشی کی ہے کہ ایران کا عراق کے ہر چیز پر قبضہ ہے، ٹیلی ویژن کے اسٹیشنوں سے لے کر منشیات کے فروخت کرنے تک ان تمام چیزوں پر انہیں کا اثر ورسوخ ہے۔

         ایران عراق میں اپنی دسترس کے سلسلہ میں یہ براءت پیش کرنے کی کوشش کر رہا ہے کہ عراق کو اس کی ضرورت ہے ورنہ عراق کا ایران کے بغیر زوال ہو جائے گا اور اس کا دعوی یہ بھی ہے کہ اسی نے موصل کو داعش کے قبضہ سے آزاد کرایا ہے جبکہ یہ صحیح نہیں ہے کیونکہ جنگ میں بنیادی طور پر عراقی فوجیوں نے امریکی مدد کے ذریعہ جنگ کیا تھا۔ ایران عراق میں چودہ سال سے اپنا وجود اور اثر ورسوخ قائم کرنے کی کوشش کر رہا ہے یہاں تک کہ آج اسی کا بول بالا ہے اور اہل سنت عرب، ترکمان اور کردی  سمیت اکثر وبیشتر عراقی سیاست دانوں نے تہران کے طریقہ کو اختیار کیا ہے اور وہ وہاں کے رہنماؤں کی تائید اور ان کی خوشنودی حاصل کرنے کے لئے ان کا قصد کرتے ہیں جیسا کہ لبنان کے سیاست داں دمشق کے صدر کو خوش کرنے کی کوشش کرتے ہیں۔

        ہم س ایرانی دسترس کے سایہ اور اس مقابلہ میں جناب مقتدی الصدر کی ہمت پر مبنی سعودی عرب کی زیارت کا بھی مشاہدہ کررہے ہیں، ان کا شمار نمایاں مؤثر شخصیت میں ہے اور اس سے اس بات کی تصدیق ہوتی ہے کہ جو کہی جارہی ہے کہ انہوں نے ایرانی دسترس کا انکار کیا ہے اور عراقی فیصلہ کی خود مختاری پر زور دیا ہے اور موجودہ نائب صدر نوری المالکی جیسے سیاستدانوں کو چیلنج کیا ہے اور یہ ہی سابق وزیر اعظم تھے اور ان کی وزارت کے دن عراق کی تاریخ میں سب سے برے دن تھے۔

        مقتدی الصدر اور چند عراقی رہنماء اپنے پڑوسی ملک ایران کے ساتھ اچھے تعلقات کی تردید نہیں کر رہے ہیں بلکہ وہ اس کی دسترس کے خلاف ہیں، حکومت اور وسائل پر اس کے قبضہ جمانے کے خلاف ہیں، سرحدوں پر نہر کے پانی کو دوسری طرف منتقل کرنے اور پٹرول کے بگل کے علاقہ میں کھودائی کرنے کے خلاف ہیں، عراقی بینکوں اور کمپنیوں کو بین الاقوامی ممنوعہ ایرانی معاملات کے لئے پر اسرار مارکیٹ بنائے جانے کے خلاف ہیں، حکومت کے باہر عراقی میلیشیاؤں کو سرگرم کرنے اور ان کی ہمت افزائی کئے جانے کے خلاف ہیں اور حکومت، پارلیمنٹ، کنزرویٹو میئر اور شہروں کے سربراہ کی تقرری، سرکاری میڈیاء کے نظام اور ذاتی میڈیاء کے پراسیکیوشن میں ایرانی پاسداران انقلاب کی مداخلت کے خلاف ہیں۔

        عراق ایک بڑا ملک ہے، یہ تہران کے دہشت گرد مذہبی نظام کے تابع کوئی ملک نہیں ہے جو شام، لبنان اور ان کے علاوہ دیگر ممالک میں فوجی کاروائیوں کو مال فراہم کرنے کے لئے مال کے ذریعہ خریدا جا سکتا ہے اور آج عراق ایرانی پاسداران انقلاب کے قبضہ میں ہر اعتبار سے ایک غریب ملک ہے اور اس کی وجہ یہ نہیں ہے کہ اس کے مالی وسائل کم ہو چکے ہیں بلکہ اس کی وجہ عراقی اداروں میں کرپشن اور بگاڑ ہے اور اس کی مزید ایک وجہ یہ بھی ہے کہ ایران نے اس کے وسائل پر ڈاکہ زنی کی ہے۔

        خلیج تعاون کونسل جیسے ملکوں کا فائدہ اسی میں ہے وہ عراق کی خود مختاری کا تعاون کریں اور وہاں کی عوام کو یہ باور کرائیں کہ وہ تن تنہا نہیں ہیں۔ میں اپنی پرانی رائے دوبارہ دہراتے ہوئے کہتا ہوں کہ خلیجی ممالک کا عراق کےمسائل سے دوری اختیار کرنا ایک سیاسی غلطی ہے جس کی وجہ سے ایرانیوں کو مداخلت کرنے اور اپنا پیر پھیلانے میں آسانی پیدا ہوئی ہے اور عراق کی طرف ایک فرقہ واریت نگاہ سے دیکھنا زمین پر سیاسی حقائق کی غلط تصویر ثابت ہوگی اور وہاں کی سوسائٹی اور سیاست کی نقل وحرکت کو نہ سمجھنا ہوگا۔

        ریاض نے مقتدی الصدر کا استقبال کیا ہے اور اس سے قبل عراق کے وزیر اعظم حیدر العبادی نے بھی یہاں کی زیارت کی تھی اور اسی وجہ سے سعودی عرب کے شمال میں واقع پڑوسی ملک عراق کے ساتھ مثبت اہم سیاسی تبدیلی کے بند دروازے کھلے ہیں۔

        یہ سوال کرنا فطری بات ہے کہ کیا عراق کی عوام ایران کا مقابلہ کر سکتی ہے اور ہم شام کی سر زمیں پر دیکھ رہے ہیں کہ ایران اور اس کے میلیشیاں کس انداز سے بغیر کسی چیز کی پرواہ کئے ہوئے لوگوں کو ذبح کر رہے ہیں اور کشت وخون کی ہولی کھیل رہے ہیں! عراق کو بچانا اہل عراق کی ذمہ داری ہے خواہ ان کی نسبتیں مختلف ہی کیوں نہ ہو اور خلیجی ممالک کی بھی ذمہ داری ہے کہ وہ ایرانی انتظامیہ کے اداروں کے سامنے سد باب ہوں کیونکہ عراقی حکومت کے اداروں پر ایران کی قدس فورسز اور اس کی سیاسی جماعتوں کا قبضہ ہو چکا ہے اور عراق اس سے بے نیاز ہے۔ یہ شام اور یمن جیسا ملک نہیں ہے جہاں وسائل کی کمی ہو بلکہ یہ ایسا ملک ہے جو اپنی حکومت کو بحال کر سکتا ہے۔ بس عراق کے قومی رہنماء بیدار ہوں اور اپنے پیغام کو بلند آواز کے ذریعہ پوری دنیا کو سنائیں کہ عراق کی عوام ایران اور کسی بھی دوسری طاقت کی محتاج نہیں ہے اور پوری دنیا یہ سن لے کہ عراق کی عوام ایرانی دسترس کے خلاف اٹھ کھڑی ہوگی اور اپنے ملک سے پاسداران انقلاب کو بھگا کر دم لے گی اور یہ فیصلہ عراق کی عوام کا ہے نہ کہ خلیجی ممالک کی عوام یا عرب عوام یا کسی اور عوام کا ہے بلکہ یہ عراق کی عوام کا فیصلہ ہے۔

منگل– 9 ذو القعدة 1438 ہجری – 1 اگست 2017ء شمارہ: (14126)