عبداللہ بن بجاد العتیبی
TT

سعودی عرب اور امریکہ...منطقی طاقت

حقیقت پسندی اور عقلیت کئی دہائیوں سے سعودی سیاست میں ایک پختہ بنیاد رہی ہے ، سعودی عرب اور امریکہ کے مابین تاریخی اتحاد نے اہم اور معروف تاریخی کامیابیاں ریکارڈ کیں اور اگر کچھ امریکی نظریاتی سیاست دان اس کو بھول گئے ہیں تو سعودی عرب نے ایسا نہیں کیا۔
یہ بات کسی سے ڈھکی چھپی نہیں ہے کہ دونوں فریقوں کے درمیان مختلف سطحوں اور فائلوں پر جس قدر اختلافات اور تضاد نے ان کے تعلقات کو متاثر کیا ہے، اگر دونوں فریقوں نے  رابطے کے تمام ذرائع کو برقرار رکھا اور اختلافات کو بڑھنے  سے گریز کیا، جس کے نتیجے میں غیر دوستانہ بیانات یا غیر متوازن پالیسیاں؛ جن  کی امریکہ پیروی کرتا ہے، ان سے ہٹ کر درست بنیادوں پر نئی تفہیم پیدا ہوئیں۔
امریکہ دنیا کا سب سے طاقتور ملک ہے اور سعودی عرب دنیا کا ایک مضبوط  اور اہم ملک ہے،  جب سعودی عرب کے ساتھ منطق، حقیقت اور مفاد ہو تو یہ کسی بھی پرجوش نظریاتی تعصبات سے زیادہ مضبوط ہوتا ہے جو مفادات   کوکوئی اہمیت نہیں دیتا، اور بڑے بھی اپنی غلطیوں سے سیکھ سکتے ہیں، کچھ امریکی دانشوروں اور سیاست دانوں کی تحریروں اور بیانات سے واضح طور پہ معاملات کا اندازہ لگانے میں غلطی اور امریکی فیصلہ ساز کی جانب سے حکمت عملی بنانے ،توازن پڑھنے اور مستقبل کا اندازہ لگانے میں ایک بہت  بڑی غلطی  کی نشاندہی ہوتی ہے۔ ذمہ داروں اور باہمی وفود کے دورےخفیہ اور علانیہ طور پہ مہینوں سے جاری ہیں اور پرنس خالد بن سلمان کا دورہ امریکہ ان سب کا مقصد نقطہ نظر کو قریب لانا اور خطوط پر نکات لگانا تھا۔ یہ سب کچھ خطے اور دنیا میں بہت سی فائلوں کو درست سمت میں لے جانے کا باعث بنا جو دونوں ممالک، خطے اور دنیا میں ان کے اتحادیوں کے مفادات کو پورا کرتی ہیں۔ جس پر یہ قائم کیا جا سکتا ہے کہ آیا صدر بائیڈن کے دورہ سعودی عرب کی تصدیق ہوئی ہے یا نہیں، سعودی وزیر خارجہ کے بیان کے مطابق، جنکا  کہنا تھا کہ: ’’میں افواہوں کے بارے میں بات نہیں کر رہا ہوں، لیکن اگر مستقبل میں کوئی دورہ ہوتا ہے تو اس کا اعلان سرکاری سفارتی ذرائع سے کریں گے’’۔  خطے میں سعودی عرب کے عظیم اتحادی ، خاص طور پر متحدہ عرب امارات اور مصر،عقل و دانش کی ملی جلی قوت کے ساتھ اس کے ساتھ رہے اور یمن، لبنان اور اسی طرح عراق و شام کی پیچیدہ فائلیں مثبت انداز میں حرکت کرتی رہیں، ایران کے ساتھ ’’ایٹمی معاہدے‘‘ پر ’’ویانا مذاکرات‘‘ زیادہ معقول اور کم پرجوش انداز میں فوری ہوگئے۔ لیکن روس یوکرین جنگ کےحوالے سے صورتحال نے دونوں ممالک کے درمیان گرم جنگ  اور روس ومغربی ممالک  کے درمیان سرد جنگ کے طور پر اپنی فطری جگہ لینا شروع کر دی۔یہ تمام فائلیں وژن کے واضح ہونے  اور اس کی باریک سیاسی حقیقت پسندی کی تصدیق کرتی ہیں جس کے ساتھ سعودی عرب اور خطے میں اس کے اتحادیوں نے ان پیچیدہ فائلوں سے نمٹا۔
 مضبوط اتحادیوں کے بغیر سرد اور گرم جنگیں نہیں جیتی جا سکتیں۔ جب امریکہ نے خود کو روس اور چین کے ساتھ بڑے تصادم میں پایا تو اس نے اپنے اتحادیوں کو تلاش کیا تو اپنی پالیسیوں اور حکمت عملی کی خامیوں کو پایا، کہ نہ تو ایران اور نہ ہی اس کے ساتھ جوہری معاہدہ کسی بھی شکل میں اور کسی بھی قیمت پر اسے فائدہ پہنچا رہا ہے اور نہ ہی توانائی کی عالمی قیمتوں میں اتار چڑھاؤ اس کے مفاد میں ہے، نہ ہی مشرق وسطیٰ کو ترک کرنا اور اسے اولیں ترجیح نہ دینا ایک حقیقت پسندانہ اور منطقی حکمت عملی ہے، نہ ہی اتحادیوں کے بغیر چین کے ساتھ کھلی محاذ آرائی جیتی جا سکتی ہے، "تائیوان" ،جنوب مشرقی ایشیا اور بحرالکاہل کی سلامتی کسی بھی صورت مشرق وسطیٰ سے زیادہ اہم نہیں ہے۔ امریکہ ایک زندہ ملک ہے جو سمجھنے اور درست کرنے کی صلاحیت رکھتا ہے۔  روس یوکرین  جنگ کے آغاز میں امریکہ نے دنیا کو غیر معمولی انداز میں روس کے خلاف متحرک کیا، پابندیاں لگائیں اور یورپ و دنیا بھر کے دیگر ممالک کو اسی موقف پر مجبور کر دیا، اس کی اعلان کردہ پالیسیوں نے پورے "بین الاقوامی نظام"، اس کے اداروں، ساکھ اور قدر کو خطرے میں ڈال دیا، جبکہ اس میں کوئی منطق یا حقیقت نہیں تھی۔ چنانچہ سعودی عرب، متحدہ عرب امارات اور ان کے اتحادیوں نے وہاں کے تنازع کے پرامن اور حقیقت پسندانہ حل کی تلاش میں عقلی موقف اختیار کیا۔ امریکہ کا بنایا ہوا محاذ ٹوٹنا شروع ہوگیا کیونکہ یہ غیر حقیقی اور ناکام تھا، بعض ’’یورپی یونین‘‘ کے ممالک؛ جن کے مفادات انہیں امریکہ کی پیروی نہ کرنے پر مجبور کرتے ہیں، ان کے رویوں میں اختلاف نظر آنے لگا اور روس نے سخت پابندیوں کے باوجود زمینی طور پر بہت کچھ حاصل کر لیا ہے۔ امریکہ کے اس جذبے پر تنقید صرف دنیا کے عقلی ممالک  اور بعض یورپی ممالک کی طرف سے ہی  نہیں بلکہ امریکہ کے اندر سے اور ’’نیو یارک ٹائمز‘‘ جیسے اداروں ، ہینری کیسنجر جیسی بااثر اور معتبر شخصیت  ، امریکی کانگریس کے کچھ فعال اراکین کی طرف سے بھی ظاہر ہونے لگی ہے۔ یہ خود امریکہ کے اندر اور پوری دنیا میں بڑھتا ہوا رجحان ہے۔ تاریخ یاد رکھے گی کہ اس شدت کے واقعے اور حقیقت پسندانہ مستقبل کے اثرات کی طرف  یہ حقیقت پسندی اور عقلیت کا آغاز مشرق وسطیٰ کے بعض زندہ، مضبوط اور فعال ممالک سے ہوا۔
ایک تضاد جس پر غور کرنے کی ضرورت ہے۔ جب ان سطور کے مصنف اور دیگر نے روسی یوکرین جنگ کے آغاز میں امریکہ میں سٹریٹجک سوچ رکھنے والے اشرافیہ کے بحران کے بارے میں لکھا، تو یہ  پچھلی دہائیوں سے کچھ پالیسیوں اور حکمت عملی کی درآمد موجودہ سیاسی اور سٹریٹجک حالات کی حقیقت سے بالکل مختلف ہیں، جیسے "کسنجر" یا "برزینسکی" کی تحریریں،  سرد عالمی جنگ کے دوران ان کا کوئی فائدہ نہیں۔آج عجیب بات یہ ہے کہ کسنجر خود بھی زندہ ہے اور انہوں نے روسی یوکرین جنگ کے بارے میں واضح طور پر اپنی رائے کا اظہار کیا ہے، ان کے یہ پرانے خیالات اور ایک مختلف حقیقت پر لاگو کرنے سے بالکل مطابقت نہیں رکھتے۔
یہ ایک اہم حقیقت کی جانب توجہ دلاتا ہے کہ ماضی سے حاصل شدہ افکار اگر کسی مختلف حقیقت پر اطلاق کی جائے تو وہ اپنے مالک کی نمائندگی نہیں  کرتی۔  جیسا کہ سیاست میں یہ سچ ہے، ایسے ہی تاریخ ، شناخت اور نظریاتی مطالعہ میں یہ سچ ہے کہ جو حقیقت کو بھول جاتا ہے وہ ریاستوں اور انسانی ذہنوں کے مفادات کو نقصان پہنچاتا ہے اور وہ تاریخ کی منطق کے خلاف جاتا ہے۔
ایک جانب سعودی عرب اور عرب خلیجی ریاستوں کے درمیان طویل اتحادی تعلقات پائے جاتے ہیں  اور دوسری جانب امریکہ کو خطے اور دنیا میں پیدا ہونے والے کسی بھی خلفشار سے بچنے کے لیے، دونوں اطراف کے مفاد میں گہری بنیادوں پر مشتمل مستقبل کے طویل المدت تحریری وعدوں اور معاہدوں ، امریکی پالیسی کے تضادات اور خطے میں اس کے بڑے اتحادیوں کی بےتوقیری کو باضابطہ طور پر روکنے کی ضرورت ہے، تاکہ یہ یقینی بنایا جا سکے کہ یہی یا ان جیسی غلطیوں کو دوبارہ  نہیں دہرایا جائے گا۔
اسٹریٹجک مفکر اور گہرائی سے تجزیہ کار جو صدر بائیڈن کی انتظامیہ کے تقریباً دو سال کے دوران تعلقات کی نوعیت، اتحادوں کی ترقی اور مفادات کے اختلافات کو پڑھیں گے وہ جان لے گا کہ خطے اور دنیا کی تاریخ کے ایک اہم تاریخی مرحلے پر "عقلیت پسندی" اور سیاسی "حقیقت پسندی" کی طاقت نے بالآخر موقف کے انحراف اور پالیسیوں کے انحراف پر حکمرانی کی۔  وہ یہ جان لے گا کہ منطق اور فیصلے کی طاقت جسے سعودی عرب اور اس کے اتحادیوں نے خطے میں اپنایا اس نے امریکی انتظامیہ کی طرف سے آنے والی ناکامیوں اور دوبارہ اصلاح کو براہ راست متاثر کیا۔
آخر کار، نئی طاقت کے عناصر، بڑی اصلاحات، بدعنوانی سے لڑنا، بنیاد پرستی اور دہشت گردی کا مقابلہ کرنا اور سعودی عرب اور خلیجی ریاستوں میں بڑے پیمانے پر ہوتی تاریخی ترقی کو نظر انداز کرنا اب ممکن نہیں ہے، امریکہ کو دوبارہ حساب لگاناہوگا اور اس نے ایسا کر دکھایا ہے۔

اتوار 28 شوال  1443 ہجری  - 29   مئی   2022ء شمارہ نمبر[15888]