سام منسی
TT

امریکی سفارتکاری میں پختگی کی علامات

امید ہے کہ امریکی صدر جو بائیڈن کا مشرق وسطیٰ کا آئندہ دورہ  اگر اگلے جون میں ہوتا ہے تو کئی ایک سطحوں پر بہت سی تبدیلیاں لائے گا۔  جن میں سب سے پہلے خطے کے مسائل میں امریکی پسپائی کی لہر کو کم کرنا جس کاآغاز صدر جارج ڈبلیو بش کی مدت  کے اختتام سے ہوا اور صدر اوباما کے ساتھ بھی قائم رہا اور آج تک جاری ہے۔ شاید اس رجحان کو فروغ دینے والا اہم محرک روس اور چین کی توسیع روکنے میں خطے کی اہمیت کے بارے میں دیر سے آگاہی ہے جو یوکرین جنگ  اور اسکے خطرات کے پس منظر میں روس اور مغرب کے درمیان بالعموم اور امریکہ کے ساتھ بالخصوص پیدا ہونے والے شدید تناؤ کی وجہ سے ہے۔
اس ضمن میں ا مریکی سفارت کاری کے مبصر کو کچھ تبدیلیوں اور علامات کا احساس ہوتا ہے جو اس کے رجحانات کے جائزے کی عکاسی کرتے ہیں تاکہ انہیں کچھ توازن کی طرف مائل کیا جا سکے، اس کا آغاز سویڈن اور فن لینڈ کا نیٹو میں شمولیت اور  یورپی سلامتی کے نظام کی تشکیل نو کی کوششوں سے شروع ہو کر مشرق وسطیٰ کے خطے بالخصوص عرب خلیجی ممالک کے حوالے سے پالیسی میں واضح تبدیلی کا باعث بنا ہے۔ جبکہ یہ تبدیلی "تیل برائے سلامتی" کے فارمولے کی نمائندگی کرتی ہے جو یوکرین جنگ کے پس منظر میں دوبارہ بین الاقوامی تعلقات کو کنٹرول کرتی ہے۔ جیسا کہ بائیڈن انتظامیہ نے محسوس کیا کہ ماسکو پر دباؤ ڈالنے، اسے گھیرنے،  اسے حاصل ہونے والے فوائد سے محروم کرنے  اور روسی صدر ولادیمیر پوتن کی حکومت کو ختم کرنے  میں کامیابی کے لیے خلیجی ریاستوں کے ساتھ اپنے تعلقات کو دوبارہ متوازن کرنے کی ضرورت ہے، اور ایسے اتحادیوں کے ساتھ ہم آہنگی کی فوری ضرورت ہے جو مغرب کی معیشت کو قوی امکان والے دھچکے سے بچاتے ہیں۔ یوکرین میں جنگ کی وجوہات اور اس کے اثرات کے علاوہ، واشنگٹن کو یہ احساس ہو سکتا ہے کہ مشرق وسطیٰ میں علاقائی مسائل سے علیحدگی کی پالیسی کے اقدامات نے چین کی بڑھتی ہوئی طاقت اور توسیع کا مقابلہ کرنے کی اس کی اسٹریٹجک کوششوں کو نقصان پہنچایا ہے۔ شاید واشنگٹن  ماسکو اور بیجنگ کے لیے میدان خالی کرنے کے بعد اپنے  ہونے والے نقصان پر بہت دیر سے جاگا ہے اور اسے عرب خطے میں چینی پیش رفت اور اس کی فوجی  وغیر فوجی صنعتوں میں تیزی سے جاری  توسیع کے خطرے کا احساس ہونے لگا ہے۔ گذشتہ ہفتے صدر بائیڈن کے بیان نے چین کے حملے کی صورت میں تائیوان کےلیے  تحفظ کی چھتری کو مضبوط کرنے کے بارے سرخ لکیر کھینچی تھی، جواس بات کی تصدیق کرتی  تھی کہ امریکی انتظامیہ مشرق وسطیٰ میں اپنی غلطی کو نہیں دہرائے گی، اور ذہنوں میں جمی ذلت اور کمزوری کو  دور کرنے کی کوشش کر رہی ہے۔ خواہ یہ اس خطے کو ماسکو اور بیجنگ کے لیے کھلا میدان چھوڑنے کے نتیجے میں تھی،یا اپنے عرب اتحادیوں کو ایران اور اس کے وکیلوں کے سامنے چھوڑنے کے نتیجے میں، یا پھر افغانستان سے اپنی افواج کے افراتفری کے ساتھ انخلاء اور "طالبان" کو اقتدار  حوالے کرنے کے نتیجے میں، ان تمام پالیسیوں نے امریکہ کو ایک ناقابل اعتماد اتحادی بنا دیا ہے۔ شام کے شمال  اور مشرق  میں حالیہ خاص طور پر فوجی پیش رفت کے بعد؛ ایسا لگتا ہے کہ واشنگٹن نے بھی 2015 سے شام کو روسی اثر و رسوخ میں دینے کے خطرے کو بھانپ لیا ہے۔ علاوہ ازیں اسرائیل کو اس کی شمالی سرحدوں پر ایرانی ملیشیا کے ساتھ گھیرنے کے اثرات کے بعد اس نے ماسکو کی ایران اور اس کے اتحادیوں کو پیچھے ہٹنے کے لیے دباؤ ڈالنے کی صلاحیت پر انحصار کیا۔ یوکرین کی جنگ کے بعد امریکہ اور روس کے درمیان تناؤ کے ساتھ خطرات بڑھ گئے جسکا عکس ماسکو کے ساتھ تل ابیب کے تعلقات پر ظاہر ہوا۔
مشرق وسطیٰ اور خلیجی علاقے میں سرد مہری کے بعد امریکی ترجیحات کو از سرنو ترتیب دینے اور بعض اوقات متحدہ عرب امارات اور سعودی عرب کے ساتھ تعلقات کے تناؤ کے تناظر میں موجودہ انتظامیہ نے اس غیر مربوط اور حتی کہ اصلاحی نقطہ نظر سے پیچھے ہٹنا شروع کر دیا اور امید کی جاتی ہے کہ یہ تنظیم نو خطے میں اتحادیوں کے درمیان ثالثی کے کردار کو فعال کرنے سے شروع ہو گی، تاکہ ان کے درمیان ماحول صاف کیا جا سکے  جسکا مقصد مربوط اور ہم آہنگ اتحاد کے فریم ورک تک پہنچنا ہے  جو واشنگٹن کو قیادت کے اصول سے پیچھے ہٹنے میں مدد دے گا، اور بائیڈن کو اوباما؛ جو دشمنوں کے ساتھ مفاہمت کرتے اور اتحادیوں سے الگ ہوجاتے تھے، ان کی شبیہ بننے سے دور رہنے میں مدد یگا ۔ واضح رہے کہ اس آنے والے صدارتی دورے کا مقصد ایران کے خلاف ایک مضبوط محاذ کے قیام کو تقویت دینا ہے، جو ان آنے والی تبدیلیوں کو محسوس کر رہا ہے، دریں اثناء اسے کئی ایک شہروں اور علاقوں میں اندرونی بغاوتوں کے سامنے کے علاوہ  آگ اور قتل وغارت کی وجہ سے اندرونی سیکیورٹی کی مسلسل خلاف ورزیوں کا بھی سامنا ہے، جن میں تازہ ترین "پاسداران انقلاب" کے ایک کمانڈر کا قتل ہے جو 2020 کے اواخر میں ایک ممتاز ایرانی جوہری سائنسدان، محسن فخر زادہ کے قتل کے بعد قتل ہونے والی اعلیٰ ترین شخصیت ہیں۔ تہران کی معمول کی استقامت کے باوجود، اس میں کوئی شک نہیں کہ وہ ان دراڑوں کے بارے میں بے چینی اور اندیشے کے ساتھ جی رہا ہے جنہوں نے لبنان، عراق اور یمن جیسے تقریبا مکمل  کنٹرول ممالک میں اس کے اثر و رسوخ کو ختم کرنا شروع کر دیا۔ علاوہ ازیں  ویانا مذاکرات کی ناکامی اور امریکی پابندیوں کے خاتمے میں تاخیر نے ایرانی حکومت کے لیے صورت حال کو مزید پیچیدہ بنا دیا ہے۔ تہران جانتا ہے کہ آئندہ  نومبر میں ہونے والے امریکی وسط مدتی انتخابات سے پہلے کسی معاہدے تک رسائی  کے  اب کوئی امکانات نہیں ہیں اور یہ بھی طے شدہ نہیں  کہ انتخابات کے نتائج معاہدے کی طرف واپسی کے محرک کے طور پر آئیں گے۔
نتیجہ یہ نکلا ہے کہ واشنگٹن کو ایک بار پھر ایرانی توسیع کے خطرات کا احساس ہو رہا ہے جس کا اظہار حال ہی میں اردن کے شاہ عبداللہ دوم نے ایرانی خطرے سے خبردار کرتے ہوئے کیا تھا۔
اسی ضمن میں، قابل توجہ امر یہ ہے کہ تہران کو ان پیش رفتوں کا احساس اسے جواب دینے پر مجبور کرے گا،  نہ کہ لبنان میں تہران سے وابستہ فلسطینی تنظیموں کی مشتبہ توسیع، یا اس تناظر سے باہر حزب اللہ کی تقریباً روزانہ کی دھمکیاں۔ نیز، یروشلم، مغربی کنارے اور دیگر جگہوں پر فلسطینی بغاوتوں میں تہران کے ہاتھ کو فلسطینیوں کی جدوجہد اور قربانیوں اور ان کی مزاحمت سے محروم کیے بغیر خارج نہیں کیا جانا چاہیے۔
صدر بائیڈن کو یوکرین میں جنگ کی پیش رفت کے بعد اخلاقی جرات کی ایک خوراک ملی، جس نے واشنگٹن کی قیادت میں مغربی اتحاد کو تقویت بخشی اور اس جنگ کے بارے میں  ان کی پالیسی نے  دوپارٹیوں سے تقریباً اندرونی اتفاق رائے حاصل کیا۔ اس متوازن حمایت نے ایرانی خطرات کو واضح طور پر دیکھایا، جس کی وجہ سے وہ ایرانی "پاسداران انقلاب" کو امریکی دہشت گردی کی فہرست سے نکالنے کے امکان سے پیچھے ہٹ گئے، اگر ایسا ہوتا تو دہشت گردی کے خلاف جنگ میں واشنگٹن کی ساکھ ختم ہو جاتی۔
روس اور چین کا سامنا کرنے کے لیے  بحر اوقیانوس اور مغربی ممالک کو دوبارہ ترتیب دینے کے ضمن میں اور ایرانی فائل کے بارے میں وضاحت کے فقدان کے سبب ضرورت سے زیادہ پرامید نہ ہوں ۔ حالیہ بین الاقوامی پیش رفت کے نتیجے میں خطے میں دو راہیں پائی جاتی ہیں:  پہلی ایرانی نظریاتی لہر کے زوال کا آغاز ہے، یعنی خمینی انقلاب کی برآمد اوراس کا مقابلہ کرنے کے لیے کئی ایک جگہوں پر محازوں کا کھلنا ۔ دوسری یہ ہے کہ یوکرائن کی جنگ کے بعد سیکورٹی و فوجی سطح کے حقائق، سیاسی کارکردگی اور اخلاقیات سے متعلق دیگر حقائق ظاہر ہوجانے کے بعد  عرب گھر کو اندر سے اور اس کے بیرون ملک تعلقات کو دوبارہ ترتیب دینا ہوگابالخصوص مغرب اور امریکہ کے ساتھ۔

پیر 29 شوال  1443 ہجری  - 30  مئی  2022ء شمارہ نمبر[15889]