سوئس مصنف اور ڈرامہ نگار فریڈریچ ڈورینمیٹ(Friedrich Dürrenmatt)(1921-1990) کا ایک مشہور ڈرامہ ہے جسے ’’دا ویزٹ آف دا اولڈ لیڈی‘‘( The Visit of the Old Lady) کہا جاتا ہے، ماہرین کے مطابق یہ ان کے تھیٹر ڈراموں میں سب سے مشہور ہے جن میں سے زیادہ تر کا تعلق المناک مزاحیہ صنف سے ہے۔ ڈرامے میں ایک لڑکی گاؤں کے ایک نوجوان سے محبت کرتی ہے، وہ اس کے ساتھ تعلقات قائم کرتا ہے پھر اسے چھوڑ دیتا ہے، وہ لڑکی عدالت کا سہارا لینے کی کوشش کرتی ہے تاکہ اسے بچے کے اعتراف پر مجبور کرسکے، لیکن وہ جھوٹے گواہوں کا سہارا لے کر فرار ہو جاتا ہے۔ پھر وہ شہر چھوڑ کر چلی جاتی ہے اور پچاس سال بعد بہت امیر ہو کر واپس لوٹتی ہے تو اس کے ساتھ ایک کفن بھی ہوتا ہے۔ وہ گاؤں کے لوگوں کو اپنی طرف مائل کرنے میں کامیاب ہو جاتی ہے اور وہ اپنے سابق عاشق کو قتل کرنے کی صورت میں کافی رقم دینے کا وعدہ کرتی ہے۔ گاؤں کے لوگ بہت سی چیزیں خریدنا شروع کر دیتے ہیں، کیونکہ عنقریب وہ انہیں بڑی رقم دینے والی تھی ۔ گاؤں کے لوگوں نے فیصلہ کیا کہ اسے مارنا ضروری ہے تاکہ وہ رقم وصول کر سکیں، وہ پولیس کا رخ کرتے ہیں تو وہ انہیں نظر انداز کر دیتی ہے، پھر وہ پادری کے پاس جاتے ہیں لیکن اس نے بھی ان پر توجہ نہیں دی، تو گاؤں کے لوگ اسے خودکشی کرنے کو کہتے ہیں تاکہ وہ بوڑھی عورت سے رقم حاصل کر سکیں، لیکن اس شخص نے گاؤں والوں سے الگ تھلگ ہونے کا فیصلہ کیا اور مرنے تک تنہا رہتا ہے۔
یہ ڈرامہ؛ ("دی وزٹ" جس میں انگرڈ برگمین اور انتھونی کوئین 1964 میں اداکاری کرتے ہیں)، خواہ تھیٹر میں ہو یا سینما میں سب سے زیادہ مشہور ڈراموں میں سے ایک بن گیا ، زندگی میں جس بھی مسئلے کا تصور کیا جائے اس کا محور "دی وزٹ" ہوتا ہے۔ ادب اور فن میں یہ بات عام ہے کہ نقاد فن پارے پر سیاسی اور سماجی اندازے لگاتے ہیں، جب ساٹھ کی دہائی کے وسط میں یہ فلم دکھائی گئی تو اسے دوسری جنگ عظیم کے دوران امریکہ سے یورپ آنے سے تعبیر کیا گیا اور پھر اس ڈرامہ نے اپنی دلچسپی کے مطابق (مارشل پلان) کا استعمال کرتے ہوئے یورپی امور کی تکنیک اپنا لی۔ اس طرح اس تعبیر میں بائیں بازو کی نوعیت ہے جس میں اپنے ذاتی مفادات کے لیے مال، اسکے مالکان اور خرچ کرنے کے طریقے کے بارے میں شکوک وشبہات پائے جاتے ہیں پا پھر سابقہ جرائم کا بدلہ ہو سکتا ہے، یا یہ صاحب ثروت مالدار کا ایک قسم کا تسلط و کنٹرول ہو سکتا ہے جو پیروکاروں اور خدمت گاروں کی تخلیق سے بہت خوش ہوتا ہے۔ اس طرح کی تعبیر اب بھی موجود ہے، جن میں کچھ ولادیمیر پوٹن اور یورپی بائیں بازو کے گروپ استعمال ہوتے ہیں۔
اس ڈرامے کی جانب واپسی لوٹتے ہیں، یہ اعلان کیا گیا ہے کہ امریکی صدر بائیڈن رواں ماہ جون کے اختتام سے قبل مشرق وسطیٰ کا دورہ کریں گے۔ یہ کوئی راز نہیں ہے کہ امریکی رہنما کا شمار بزرگوں میں ہوتا ہے اور وہ اپنے پیش رو ٹرمپ کے برعکس اس بات پر یقین رکھتے ہیں کہ دنیا کو امریکی پیغام اس حقیقت پر مبنی ہے کہ امریکی جمہوریت بحیثیت سیاسی نظام ممالک، خطوں، معاشروں اور خاص طور پر ان ممالک میں جہاں ’’آمرانہ‘‘ اور ’’آمریت‘‘ وغیرہ جیسے ملتے جلتے نام ہیں جن سے کوئی خیر نہیں نکلتی، کے مسائل حل کرنے پر بہتر انداز کے ساتھ قادر ہے۔ اس اعلان کے طے ہونے کے بعد سے، عموما دفاع، خارجہ امور اور مرکزی انٹیلی جنس کے امریکی نمائندوں کے مشرق وسطیٰ کے مختلف ممالک کے دوروں میں اضافہ ہوا ہے اور بدلے میں خطے کے ممالک سے ملاقاتی دورے ہو رہے ہیں۔ یہ تمام تحرک؛ جو آنے والے دورے کی تیاری شمار ہوتاہے، متعدد حالات کی روشنی میں ہے جن کو مدنظر رکھنا ضروری ہے:
پہلا یہ کہ ایک طرف روس اور یوکرین کے درمیان جنگ جاری ہےاور دوسری جانب ماسکو اور واشنگٹن ؛ جس کے ساتھ نیٹو اتحادی ہیں ، ان کے درمیان جاری ہے۔ اگر جنگ کے سیاسی اور اسٹریٹجک نتائج ہوتے ہیں تو اس کے معاشی نتائج بلند ترین ہیں ،کیونکہ یہ دنیا کو متاثر کرتے ہیں اور توانائی اور تیل کو عالمی مسائل میں سرفہرست بناتے ہیں جو مہنگائی اور قیمتوں میں اضافے کا سبب بنتے ہیں۔ دوسرا یہ اس وقت ہو رہا ہے کہ جب امریکہ مشرق وسطیٰ سے باہر نکلنے کا اعلان اور راہ اپنا چکا ہے اور ایسے وقت میں جب اسے نظر آ رہا ہے کہ دنیا میں اس کے دشمن اور حریف روس اور چین ہیں اور اس کے دوست مشرقی اور جنوب مشرقی ایشیا میں ہیں جہاں سب سے زیادہ اقتصادی مواقع پائے جاتے ہیں۔ تیسرا یہ کہ مشرق وسطیٰ میں کوئی ایسا مسئلہ نہیں جو ایران کے جوہری معاہدے جتنا توجہ کا مستحق ہو۔ جہاں تک دہشت گردی یا افراتفری کا تعلق ہے، وہ خطے کے حل ہونے والے مسائل ہیں۔ لیکن واشنگٹن کا اپنا نظریہ ہے جو یمن میں حوثیوں، مصر میں اسلامک گروپ اور دیگر کئی دہشت گرد تنظیموں کی دہشت گردی کو ظاہر کرتا ہے۔ جہاں تک ’’ایرانی پاسداران انقلاب‘‘ کا تعلق ہے تو اس پہ نظر ہے۔ چوتھا، مسٹر بائیڈن اس وقت خطے میں آ رہے ہیں کہ جب وہ امریکہ کے اندر سیاسی جنگ کے دروازے پر ہیں، خاص طور پر کانگریس کی وسط مدتی تجدید، جس میں اگر ریپبلکن اپنے مقاصد حاصل کر لیتے ہیں، تو وہ بائیڈن انتظامیہ کے کام کو مفلوج کر دیں گے۔ اس لیے ان کے پاس اگلے صدارتی انتخابات تک کا وقت باقی ہے، جس میں ممکنہ طور پر ریپبلکن امیدوار ڈونلڈ ٹرمپ یا ان سے ملتا جلتا کوئی ہو گا۔پانچویں بات یہ ہے کہ مذکورہ تمام باتوں پر خطے کا ردِ عمل خود انحصاری ہے اور خلیجی سربراہی اجلاس کی طرف سے جاری ہونے والے "العلا اعلامیہ" کے بعد سے خطے کی گرمی کو ٹھنڈا کرنے اور پرسکون کرنے کا عمل شروع ہو گیا ہے۔ اس اعلان سے پہلے خطے کے بعض ممالک اسرائیل کے ساتھ "ابراہیمی امن" کے عمل میں داخل ہو چکے تھے اور اس کے بعد ایران اور ترکی کے ساتھ دروازے اور کھڑکیاں کھولنے کی کارروائیاں شروع ہوئیں۔ یوں منقطع تعلقات واپس لوٹ آئے اور خطے کے اندر افہام و تفہیم پیدا کرنے کے لیے علاقائی اقدامات کا دوبارہ آغاز ہوا۔
خطے اور دنیا میں اور بھی بہت کچھ ہو سکتا ہے جس کو مدنظر رکھا جانا چاہیے، لیکن اس دورے کی اپنی اہمیت ہے، کیونکہ یہ اس ملک کی طرف سے ہے جس کے زوال کے بارے میں جو بھی کہا جائے وہ پھر بھی دنیا کی نمبر ون سُپر پاور ہے، یہاں تک کہ چاہے یہ بزرگ رہنما کی طرف سے ہو جو اپنا مفاد حاصل کرنا چاہتا ہو، کیونکہ اسکے کچھ معاشی مسائل ہمارے بھی مسائل ہیں۔ تیل پیدا کرنے والے خلیجی عرب ممالک کو واضح اور صاف گو ہونا چاہیے کہ وہ جو کچھ بھی کریں گے وہ عالمی معیشت اور اس کے مفادات کے لیے کریں گے، اسے یہ سمجھنا چاہیے کہ قیمتیں بڑھنے پر پیداواری ممالک پر دباؤ نہیں ڈالنا چاہیے، جب کہ قیمتیں گرنے پر دنیا اپنا منہ دوسری طرف پھیر لیتی ہے۔ مشرق وسطیٰ کے مسائل اور مخمصے کے حوالے سے مکہ کے لوگ اپنی عوام کو زیادہ جانتے ہیں، درحقیقت جب بھی امریکہ خطے میں مداخلت کرتا ہے، تو فیصلہ اس سے نکل کر واشنگٹن اور پھر دنیا کے دوسرے دارالحکومتوں تک پہنچ جاتا ہے، جیسے بیجنگ اور ماسکو، پھر وہ فیصلے کے اس کیک سے اپنا حصہ تلاش کرنے لگتے ہیں۔ اگر امریکہ کو اسرائیلی تشویش ہے تو موجودہ صورتحال مشرق وسطیٰ میں اسرائیل کو ایڈجسٹ کرنے کے متعدد وسائل کی نشاندہی کرتی ہے، جیسا کہ امن معاہدوں اور براہ راست تعلقات، مشرقی بحیرہ روم گیس فورم کےقیام، شمالی بحیرہ احمر میں مفاہمت کی دوسری صورتوں اور بری ، بحری اور فضائی آزادگزرگاہوں میں ہوا۔ اب تک جو چیز اس جامع ایڈجسٹمنٹ کی راہ میں حائل ہے وہ فلسطینی علاقہ "C " میں جاری آبادکاری میں اسرائیلی طرز عمل ہے، اسرائیل کے اندر فلسطینیوں کے ساتھ امتیازی سلوک، القدس (یروشلم) میں فلسطینی، عربی اور اسلامی حقوق اور مسجد اقصیٰ پر مسلسل حملے، چاہے وہ اسرائیلی حکومت کی طرف سے ہوں یا یہودی انتہا پسندوں کی جانب سے۔ ان سب سے براہ راست علاقائی بنیادوں پر نمٹا جا سکتا ہے، جیسا کہ حالیہ برسوں میں ہونے والی تمام مثبت پیش رفتوں میں ہوا ہے۔ ایران کے حوالے سے ایک بات صاف اور واضح یہ کہ اسے جوہری ہتھیار رکھنے کی اجازت نہیں دینی چاہیے اور اس پرانی تجویز کی حوصلہ افزائی کرنے میں کوئی مضائقہ نہیں کہ پورے مشرق وسطیٰ کے خطے کو جوہری ہتھیاروں اور اس کے ساتھ دیگر بڑے پیمانے پر تباہی پھیلانے والے تمام اقسام کے ہتھیار وں سے پاک کر دیا جائے۔
بدھ 2 ذوالقعدہ 1443 ہجری - 1جون 2022ء شمارہ نمبر[15891]