عثمان ميرغني
TT

امریکہ اپنی حالت زار سے بچنے میں ناکام!

گذشتے ہفتے ٹیکساس میں اسکول کے قتل عام کے بعد، جس نے امریکہ کو ہلا کر رکھ دیا اور دنیا کو پھر سے چونکا دیا ہے، سابق صدر ڈونالڈ ٹرمپ اور کانگریس کے ممتاز اراکین جیسے سیناٹور ٹیڈ کروز سمیت متعدد سیاستدان ہتھیار اٹھانے کے حق میں  دفاع کرتے ہوئے  سامنے آئے ہیں۔ انہوں نے اساتذہ کو مسلح کرنے اور اسکول کے تحفظ کے اقدامات کو مضبوط بنانے کے لیے مزید رقم مختص کرنے جیسی تجاویز دیں ہیں۔ کچھ نے میٹل ڈیٹیکٹر لگانے اور اسکول کے دروازوں پر ذاتی سامان چیک کرنے کا مطالبہ کیا ہے، جیسا کہ ہوائی اڈوں پر ہوتا ہے۔
درحقیقت، ریاست ہائے متحدہ امریکہ میں ایسے اسکول ہیں جنہوں نے ہوائی اڈوں سے زیادہ سخت طریقہ کار کو نافذ کیا ہے، لیکن اس سے قتل عام کو نہیں روکا جا سکا۔ بہت سے اسکولوں میں ایسے اقدامات کیے گئے ہیں جیسے اندر اور باہر نگران کیمروں کی تنصیب اور میٹل ڈیٹیکٹر کا استعمال، جہاں طالب علم ایک خاص گیٹ سے گزرتا ہے یا اسے ہاتھ میں اٹھائے آلہ کےساتھ اسکین کیا جاتا ہے۔ جہاں بیگ کی دستی چیکنگ بھی ہوتی ہے، طلباء کے داخل ہونے کے بعد دروازے بند کر دیئے جاتے ہیں، جبکہ اسکولوں اور یونیورسٹیوں میں مسلح سیکورٹی اہلکار تعیینات کیے جاتے ہیں، یا اپنے عملے کو ہتھیاروں کے استعمال کی تربیت دی جاتی ہے۔
اندازے بتاتے ہیں کہ ریاست ہائے متحدہ امریکہ میں اسکولوں اور یونیورسٹیوں کو سیکورٹی اور نگرانی کے آلات فروخت کرنے سے اربوں ڈالر کی صنعت نے فائدہ اٹھایا ہے۔ لیکن یہ مسئلہ اب بھی ایسے ملک کو گھیرے ہوئے ہے جہاں اوسطاً ہر گھنٹے میں ایک بچے کو گولی ماری جاتی ہے اور پچھلے دس سالوں کے دوران تقریباً 30 ہزار بچوں اور نوعمروں کو گولی مار کر ہلاک کیا جا چکا ہے، جو کہ سڑک حادثات کے دوران اس عمر کے ہلاک ہونے والے بچوں کی تعداد سے زیادہ ہے۔ ’’جان ووڈرو کوکس‘‘ کی کتاب "بچے گولی کی زد میں : ایک امریکی بحران  (Children Under Fire: An American Crisis)" کی بناء پر دنیا کے امیر ممالک جن میں کینیڈا، جرمنی اور برطانیہ بھی شامل ہیں ان میں گولی کا نشانہ بننے والے افراد کے مطالعے سے معلوم ہوا ہے کہ 91 فیصد بچے جن کی عمریں پندہ سال سے بھی کم تھیں اور گولی لگنے سے ہلاک ہوگئے ان کا تعلق امریکہ سے تھا۔ کتاب میں ایک اور تحقیق کے اعدادوشمار کا حوالہ دیا گیا ہے جس میں کہا گیا ہے کہ ریاست ہائے متحدہ امریکہ میں کسی بھی دوسرے دولت مند جمہوری ملک کے مقابلے میں بڑی عمر کے نوجوانوں میں بندوق کے تشدد سے ہلاکت کا امکان 82 گنا زیادہ ہے۔
امریکہ کو روایتی ہتھیار کے کلچر، اس معاملے پر باہمی تقسیم اور ہتھیار اٹھانے کے حامیوں کے لیے کام کرنے والے پریشر گروپس کی طاقت جیسے حقیقی مسئلے درپیش ہیں اور ایسا لگتا ہے کہ وہ ان کا علاج کرنے سے قاصر ہے یا پھر تیار نہیں ہے۔ امریکہ میں 1968 سے آج تک گولی لگنے سے ہلاک ہونے والوں کی تعداد اس کے فوجیوں کی کل تعداد سے زیادہ ہے جو اس کی تمام جنگوں میں مارے جا چکے ہیں۔  گولیوں سے سالانہ چالیس ہزار سے زائد لوگ مارے جاتے ہیں، اس کے باوجود اسلحہ اٹھانے کے مسئلے کا کوئی حل نظر نہیں آتا۔
بعض اندازوں کے مطابق، امریکی شہریوں کے پاس 400 ملین سے زیادہ اسلحہ ہے جو کہ ملک کی 326 ملین کی آبادی سے زیادہ ہے۔ امریکہ اس میدان میں دنیا کے کسی بھی دوسرے ملک پر سبقت رکھتا ہے، یہ ایک ایسی برتری ہے جس سے بہت سے سانحے رونما ہوئے۔ قابل ذکر بات یہ ہے کہ یہ ہتھیار 42 فیصد گھروں یا خاندانوں کےپاس ہیں، یعنی ان میں سے ہر خاندان کے پاس اوسطاً 8 ہتھیار ہیں۔
چھوٹے ہتھیاروں کے بارے میں عالمی سروے، جو جنیوا میں گریجویٹ انسٹی ٹیوٹ آف انٹرنیشنل اسٹڈیز اینڈ ڈیولپمنٹ کی جانب سے کیا گیا تھا، جس میں 230 ممالک کو شامل کیا گیا تھا اس کی تازہ رپورٹ کے مطابق امریکی غیر متنازعہ طور پر ان میں سرفہرست ہے۔ مثال کے طور پر 2017 میں، امریکی دنیا کی آبادی کا 4 فیصد تھے، لیکن دنیا کے عام شہریوں؛ یعنی جو باقاعدہ افواج میں نہیں ہیں، کے پاس موجود تمام چھوٹے ہتھیاروں کا تقریباً 46 ان کے پاس تھا۔ آبادی کے مقابلے میں ہتھیار رکھنے کے تناسب کے لحاظ سے یمن امریکہ کے بعد دوسرے نمبر پر آتا ہے۔ امریکہ میں اسلحے کا مسئلہ آئین کی دوسری ترمیم کی وجہ سے بہت پیچیدہ ہے جو 1791 میں منظور کی گئی ان دس ترامیم میں سے ہے جسے  ’’حقوق کا بل Bill of Rights) )‘‘ کہا جاتا ہے، یہ شہریوں کو ہتھیار رکھنے کا حق دیتا ہے۔ ترمیم میں کہا گیا ہے کہ: "چونکہ کسی بھی آزاد ریاست کی سلامتی کے لیے ایک منظم ملیشیا کی موجودگی ضروری ہے، اس لیے لوگوں کے ہتھیار رکھنے اور اٹھانے کے حق کی خلاف ورزی نہیں کی جائے گی۔" اسلحہ کے جرائم کے پھیلاؤ کی وجہ سے اس ترمیم کو سب سے زیادہ متنازعہ ترامیم شمار کیا جاتا ہے۔
اس آئینی متن کی تشریح میں بھی ایک اشکال پایا جاتا ہے جس کے بارے میں کئی قانون دانوں کا اختلاف ہے۔ ایک گروہ اس متن کو اس کے تاریخی تناظر میں دیکھتا ہے جس میں اسکی اجازت دی گئی تھی۔ یعنی اس کا تعلق سرکاری ملیشیا تنظیموں کے اندر ہتھیاروں کے استعمال اور ہتھیار اتارنے سے منع کرنے سے تھا ناکہ افراد کے اپنے دفاع کے لیے ہتھیار رکھنے کو فراہم کرنے کے لیے۔ مسئلہ یہ ہے کہ (آئینی) سپریم کورٹ نےسنہ  2008 میں اپنے سامنے پیش کئے گئے ایک مقدمے کے فیصلے میں کہا کہ آئین فرد کے ہتھیار رکھنے کے حق کا تحفظ کرتا ہے۔ اس وقت عدالت کے ججوں کی اکثریت قدامت پسندوں پر مشتمل تھی اور یہ فیصلہ نافز العمل حتمی فیصلہ بن گیا۔ جس کا ازالہ آئین میں ترمیم کے ذریعے ہی کیا جا سکتا ہے، جو اس مسئلے پر دائمی تنازعہ اور گہری تقسیم کی روشنی میں ناممکن ہے، علاوہ ازہں ایسی پیچیدگیاں پائی جاتی ہیں جو تاریخی طور پر امریکہ میں کسی بھی آئینی ترمیم کو درپیش ہوتی ہیں۔
چنانچہ ترمیم آئین کے آرٹیکل پانچ کے مطابق دو طریقوں میں سے ایک طریقے سے ہوتی ہے؛ یا تو کانگریس کی طرف سے مشترکہ قرارداد کے ذریعے جسے ایوان اور سینیٹ میں دو تہائی اکثریت سے منظور کیا جائے، یا امریکی ریاستوں کے دو تہائی قانون سازوں کی درخواست پر۔ دونوں صورتوں میں ترامیم قانونی نہیں بنتیں اور آئین کے حصے کے طور پر اس وقت تک اختیار نہیں کی جاتیں جب تک کہ مختلف ریاستوں کے تین چوتھائی قانون ساز ان کی توثیق نہ کر دیں۔ آئین پر اعتماد کے بعد سے اب تک 27 بار ترمیم کی جا چکی ہے اور آخری ترمیم 1992 میں ہوئی تھی، جبکہ  ترامیم کو منظور کرانے کی دیگر سینکڑوں کوششیں ناکام ہو چکی ہیں۔ ہتھیاروں کے معاملے پر کانگریس، ریاستوں اور مجموعی طور پر معاشرے میں تقسیم کے سبب  سے کسی بھی آئینی ترمیم کے امکانات بہت ہی کم رہ  جاتے ہیں  تاکہ ہم انہیں  معدوم نہ کہیں۔
صرف ایک چیز جو عوامی دباؤ کی وجہ سے ممکن ہو سکتی ہے وہ ہے کانگریس کی طرف سے مخصوص قسم کے ہتھیاروں اور آلات کی فروخت پر پابندی کی  قراردادوں کو اپنانا، جیسا کہ 1994 میں ہوا تھا،  جب ایک وفاقی قانون کے تحت خودکار یا نیم خودکار اسالٹ رائفلز پر پابندی عائد کرنے کی منظوری دی گئی تھی، جو دس سال تک جاری رہی۔ لیکن 2004 میں پابندی ختم ہونے کے بعد کانگریس میں اس کی تجدید کے لیے کوئی اور سنجیدہ کوشش نہیں کی گئی۔ اس کی وجہ بھی گہری تقسیم ہے، چاہے وہ سینیٹ میں ہو یا ایوان نمائندگان میں، حالانکہ رائے عامہ کے جائزوں سے ظاہر ہوتا ہے کہ 63 فیصد امریکی اس پابندی کی حمایت کرتے ہیں۔

جمعرات3 ذوالقعدہ  1443 ہجری  - 2جون  2022ء شمارہ نمبر[15892]