عبداللہ بن بجاد العتیبی
TT

بیداری:فریب کا نشہ اور یقین کی بولی

علم و معرفت  نے تجربے اور مہارت کے ساتھ یہ ثابت کر دیا ہے کہ بڑے سماجی مظاہر اچانک  سےتبدیل نہیں ہوتے اور نہ ہی پلک جھپکتے غائب ہوتے ہیں۔تاریخ، معاشرت، نفسیات اور فلسفہ کے علوم اپنی تمام شاخوں میں اس بات کی تصدیق کرتے ہیں کہ انسانی گروہ جو ایک فکر کے قائل ہوں، جو عقیدے پر یقین رکھتے ہوں اور جو مفادات کے جال سے جڑے ہوئے ہوں، وہ آسانی سے ہمت نہیں ہارتے، پیچھے نہیں ہٹتے، دوبارہ غور نہیں کرتے، لیکن وہ دھوکہ دہی اور مقابلہ بازی کے فن میں مہارت حاصل کر سکتے ہیں۔ ان بڑے مظاہر میں سے ایک یہ اسلامی سیاسی جماعتیں اور فکری گروہ ہیں جو بہت سے معاشروں میں شرقاً غرباً اور شمالاً  جنوباً پھیلے ہوئے ہیں ، اور یہ کافی ہے کہ ان کی جائز اولاد نے "دہشت گردی کے رجحان" میں نمائندگی کر کے دنیا کو گھیر لیا اوراکثر ممالک میں مقامی سطح پر اوراس کے ساتھ علاقائی اور بین الاقوامی سطح پر لوگوں کو کئی دہائیوں تک مصروف رکھا، جبکہ کچھ مغربی مفکرین نے لکھا کہ اس سے لڑنا سرد جنگ کے بعد نئے بین الاقوامی تنازعے کی تشکیل دے گا۔ یہ تجویز کتنی سادہ اور سطحی ہے جو لوگوں کو یہ باور کرانا چاہتی ہے کہ یہ سب کچھ پلک جھپکتے ہی ختم ہو گیا ہے اور ہمیں ایک صفحہ پلٹ کر دوسرا شروع کرنا ہے۔
"سیاسی اسلام" اور ماضی و حا ل میں اس کی انتہا پسندانہ فکر کی ذیلی شاخوں  کا اکثر مفید مطالعہ، تجزیہ اور مقابلہ ابھی تک مکمل نہیں ہوسکا  اور انتہا پسندی پر غلبہ حاصل کرنے کے لیے ممالک اور مفید معاشروں کی ترجیحات کو دوبارہ ترتیب دیا گیا ہے، لیکن یہ اس راہ کی ابتداء ہے انتہا نہیں ہے۔ حفاظتی اور قانونی حل انتہائی ضروری ہیں ،جن سے صرف نظر ممکن نہیں، لیکن ان پر "بنیاد پرستی"  کی وجہ سے مطمئن رہنا چوری جیسا جرم ہے اور اس پورے معاملے کے بارے میں انتہائی غلط تصور پر مبنی ہے اور جب تصور ہی غلط ہو تو اس پر بنائے گئے تمام حل اسی کی طرح غلط ہونگے۔
سیاسی اسلام اور اس کے عناصر کی زیادہ تر علامتیں جھوٹ، دھوکہ دہی اور جعلسازی کی آمیزش پر مبنی  ہیں، یہ ایک ایسا وصف ہے کہ جس کا کسی بھی اصولی حکم سے کوئی تعلق نہیں ہے، اور وہ ان سب کی اجازت اس بنیاد پر دیتے ہیں کہ یہ "دعوت کی ضروریات " اور "دین کے فرائض" میں سے ہیں۔ لہٰذا ان کے لیے اسلام تمام اثرات کے ساتھ محض اقتدار، سماجی طاقت اور سیاسی طاقت تک رسائی  کا ایک ذریعہ ہے۔ ان کے "رنگینی" اور " اتار چڑھاؤ" کی تاریخ مبصر اور ماہر محقق کو معلوم ہے۔ عام لوگ  بھی جانتے ہیں، لیکن مبہم انداز میں، کہ وہ رنگین اور بدلتے مزاج  کےلوگ ہیں،  لیکن وہ یہ نہیں سمجھتے کہ ایسا کیوں ہے، اور وہ بیماری کی اصل اور مسئلہ کے ماخذ پر ہاتھ نہیں ڈالتے۔ سیاسی اسلام کی علامتوں کی یادداشتیں اور مختلف ادوار میں ان کی یادیں اس اتار چڑھاؤ اور رنگینی کی واضح نشاندہی کرتی ہیں۔ اس کی واضح ترین مثال ’’اخوان المسلمین‘‘ کے بانی حسن البنا کی  کتاب"دعوۃ اور مبلغین کے نوٹس (مذكرات الدعوة والداعية)" میں ان کےبدلتے  مؤقف اور ان کی اصلاح اور تغیرات کے مطابق بار بار  ان کی زندگی کی تشریح سے  ان گروہوں اور علامتوں کی نوعیت کا واضح اندازہ ہوتا ہے۔ یہ سچ ہے کہ بانئ تحریک  ان کے بعد آنے والی بہت سی علامتوں کے بارے میں صحیح تھے جو خود "الاخوان" گروپ سے یا درجنوں دیگر گروہوں اور دھاروں سے آئیں،  اصول ایک ہی ہے، چاہے اظہار کے طریقے مختلف ہوں۔ان لوگوں کی یادداشتیں اور ان کی یادوں کو لکھا جاتا ہے اور پھر ان کی اصلاح کی جاتی ہے، جو لکھنے کے وقت فکری اور سیاسی صورتحال کو متاثر کرتی ہے اور یہ ضروری نہیں کہ تاریخ اور پچھلے واقعات میں اصل میں کیا ہوا تھا۔ تاہم، اپنے اردگرد موجود تمام تحفظات کے باوجود یہ چھپی ہوئی چیز کو ظاہر کرتا ہے اور ماہر محقق کو بہت سے واقعات کی گرمی اور تنازعات کی شدت کے دوران  اختیار کی گئی خاموشی کے بارے میں بہت کچھ جاننے کے  قابل بناتا ہے، خاص طور پر جب مصنف ان پر رہتا ہے اور متعدد حصوں اور بہت سے صفحات پر مشتمل کتابیں لکھتا ہے، اور وہ عام طور پر گپ شپ سے متاثر ہوتے ہیں، سوائے ان لوگوں کے جو بااثر یا خفیہ عہدوں پر متشدد تنظیموں سے تعلق رکھتے ہیں، جو انتہائی حد تک رازداری کے ساتھ "بیعت" کے پابند ہیں۔
یوسف القرضاوی سیاسی اسلام اور اخوان المسلمین جماعت کی علامتوں میں سے ایک ہیں۔انھوں نے اپنی کتاب "دی سن آف دی ولیج اینڈ دی بک" کئی حصوں میں لکھی جو سیکڑوں صفحات پر مشتمل ہے، انھوں نے ان واقعات کا ذکر کیا جن سے وہ گزرے اور ان رازوں سے پردہ اٹھایا جن میں وہ ایک فریق تھے۔ جب انہوں  نے اسے لکھا تو ان کا یہ خیال  تھا کہ وقت گزر چکا ہے، اس لیے انہوں نے اس کے انکشاف کی اجازت دی۔یہاں، انہوں نے بعد میں جو کچھ لکھا اس کا موازنہ واقعات کے وقت ان گروہوں کی علامتوں اور ان کی پیش کش سے کیا جا سکتا ہے، تاکہ ان گروہوں اور ان کی علامتوں کی طرف سے دانستہ غلط معلومات کے حجم کو پوری آگاہی اور واضح اہداف کے ساتھ آسانی سے ظاہر کیا جا سکے۔
ایک اور مثال، ’’سفر الحوالی‘‘؛  ایک سعودی جو "سروریہ" تحریک اور گروہ سے تعلق رکھتے ہیں، نے "مسلمان اور مغربی تہذیب (المسلمون والحضارة الغربية)" کے عنوان سے ایک کتاب لکھی جو کئی حصوں میں ہے اور سینکڑوں صفحات پر مشتمل ہے، جس میں انہوں نے متعدد مسائل اور  مختلف فائلوں کے بارے میں جو چاہی گپ لکھی، انہوں نے مختلف زمانوں اور جگہوں کے تاریخی واقعات اور واضح تنازعات کاذکرکیا اور اس مضمون کے تناظر میں ایک اہم ترین چیز جس کا انہوں نے ذکر کیا وہ ایرانی حکومت اور خمینی انقلاب سے نمٹنے کا مسئلہ ہے، یہ ایک انکشافی نقطہ اور اہم لمحہ ہے۔ سعودی عرب میں سیاسی نظام کو چیلنج کرنے کے لیے الحوالی اور "سروریہ" گروپ کے ان کے ساتھیوں نے کئی دہائیوں تک سعودی عرب اور خلیجی ریاستوں میں شیعوں کے لیے انتہا پسند فرقہ وارانہ اور خارجی خطابات کو اپنائے رکھا۔وہ معاشرے میں انتشار پھیلانے ، انہیں  اکسانے، متحرک کرنے اور مشتعل کرنے کے لیے لیکچر دیتے، فرقہ وارانہ نظمیں، کتابیں، اورمضامین لکھتے، اور روایتی فقہاء سے حاصل کیے گئے فتوے دیتے  تاکہ معاشرتی انتشار پھیلایا جائے،  ایک سماجی اور فرقہ وارانہ تفرقہ پیدا کیا جائے جو ریاست کو شرمندہ کرے اور اس کی قانونی حیثیت کو چیلنج کرے، اور یہ سب کچھ موجود ہے اور بہت سے لوگ اس کو یاد کر سکتے ہیں، تو پھر کیا نئی بات ہے جو الحوالی اپنی آخری کتاب میں لائے؟
نئی اور دلچسپ بات یہ ہے کہ انتہا پسند فرقہ پرست نظریاتی تجویز کے بعد جس کے ذریعے انہوں نے نوجوان نسلوں کے ذہنوں کو چارج کیا اور انہیں انتہا پسندی اور دہشت گردی کی طرف دھکیل دیا، اس کتاب میں یہ بات سامنے آئی کہ وہ اپنی سابقہ ​​تجاویز پر یقین نہیں رکھتے، بلکہ وہ اس کے بالکل برعکس پر یقین رکھتےہیں، جیسا کہ انہوں نے اس کتاب میں خلیجی عرب ریاستوں میں استحکام اور سلامتی پر ضرب لگانے کے لیے ایرانی حکومت کے ساتھ مکمل تعاون کے لیے قانونی اور سیاسی طور پر نظریاتی وضاحت کی ہے، اور یہ جو کچھ ’’القاعدہ‘‘ نے ایرانی حکومت کے ساتھ اپنے مکمل تعاون کے ساتھ کیا ہے وہ عقیدہ کے منافی نہیں ہے اور ضروری نہیں کہ حرام کی اجازت دی جائے،  بلکہ یہ سیاسی اسلام گروپوں کے لیے ایک جائز اور مذہبی جواز کے ساتھ ایک اہم سیاسی فائدہ ہے۔ ایک طویل سلسلہ میں یہ صرف دو مثالیں ہیں جنہیں ان علامتوں اور شخصیات کے لیے یاد کیا جا سکتا ہے اور درج کیا جا سکتا ہے جنہوں نے مختلف جگہوں، متعدد گروہوں اور مختلف اوقات میں سیاسی اسلام کے گروپوں کو لکھا، بولا، اور تاریخ سازی کی، کچھ خصوصی مطالعاتی مراکز ان میں سے اکثر کی نگرانی کر سکتے ہیں اور جو کچھ انہوں نے یادوں اور تاریخ کے طور پر لکھا ہے اس کا زمینی حقائق سے موازنہ کر سکتے ہیں، تاکہ بہت سے کاغذات سامنے آئیں، جن میں سوچنے کے طریقے، تنظیم کے طریقے اور پروپیگنڈہ کے طریقہ کار جن پر عمل کیا گیا، وہ شائع ہوں، کیونکہ  موازنہ پڑھنے اور تجزیہ کرنے کا ایک اہم علمی طریقہ  کارہے۔
یہ علمی طریقہ اس سے کہیں بہتر ہے جسے یہ گروپ میڈیا میں "نظرثانی" یا " مراجعت" کہتے ہیں، جن میں سے بہت سے سیکیورٹی حالات اور عارضی دباؤ کی بنیاد پر جاری کیے گئے تھے، جن کا مقصد قلیل مدتی اہداف حاصل کرنا تھا۔
آخر میں، کچھ شخصیات کو سامنے لانا کافی ہے جنہوں نے کچھ ترمیم کی، اور جب وہ لمحہ آیا جسے "عرب بہار" کے نام سے جانا جاتا تھا، وہ شدت پسندی اور دہشت گردی کے میدان میں طاقت کے ساتھ واپس لوٹ گئے، اور سمجھدار شخص بصیرت والا ہے۔

اتوار - 6ذوالقعدہ  1443 ہجری  - 5 جون  2022ء شمارہ نمبر[15895]