سال 1969 میں اس وقت کے نوجوان مصری ناول نگار جمال الغیطانی کے شاہکار ناول "ہزار سال پہلے نوجوان کے اوراق" کا پہلا ایڈیشن شائع ہوا۔ ادبی کام جس نے نئی نسل کو بتایا کہ اس کے بعد کیا ہونے والا ہے، ان کے شعور میں نمایاں ترین واقعہ وہی تھا جسے ان دنوں کے دھچکے (النکسہ) یا 5 جون 1967 کی شکست کے نام سے جانا جاتا تھا۔
کہانیوں کا یہ مجموعہ مصر کی مملوک تاریخ پر ایک تحقیق اور مصیبت و زوال کے وقت سچائی کو جاننے کی جستجو تھی، یہ کسی مشکل حقیقت سے فرار نہیں تھا، بلکہ اس بات کا اظہار تھا کہ آگے نکلنے کا نقطہ ہمیشہ وہیں سے شروع ہوتا ہے جہاں ماضی میں ہم نے چھوڑا تھا۔ ادب سے تعلق نہ رکھنے والوں کے لیے نقطہ آغاز مختلف تھا، کیونکہ یہ لمحے آگ اور شعلوں کے ساتھ انگاروں کو چھو رہے تھے۔ 5 جون 1967 کی صبح ٹھیک 9:00 بجے، فیکلٹی آف اکنامکس اینڈ پولیٹیکل سائنس کے فرسٹ ایئر کے طلباء "عرب سوسائٹی" کا امتحان دینے کے لیے یونیورسٹی کے ہاسٹل ٹینٹ میں جمع ہوئے۔ جبکہ سوالات قابل قبول لگ رہے تھے اور ہمارے استاد ڈاکٹر عبدالمالک عودہ، اللہ ان پر رحم فرمائے، - عرب یونیورسٹیوں میں افریقی تعلیم کے بانیوں میں سے ایک - تھے، وہ ایک سخت مبصر کے طور پر امتحانی سینٹر میں گھوم رہے تھے کہ دھماکوں اور بموں کی آواز نے سیاسی پیشرفت اور فوجی ہجوم کے سلگتے ہوئے جذبات سے اشارہ کیا کہ جنگ شروع ہو چکی ہے۔ ان عظیم استاد کی طرف سے امتحان مکمل کرنے کی ضرورت کے بارے میں ہمیں قائل کرنے کی کوششوں کے باوجود ہم میں سے ہر ایک نے جو کچھ لکھا تھا اسی پر اکتفا کرتے ہوئے امتحان چھوڑ کے تیزی سے باہر نکلے تاکہ خبر کی تصدیق کر سکیں اور پھر عظیم فتح کے انتظار میں گھنٹے گننے لگے۔
باقی کہانی تو سب کو معلوم ہے لیکن اس لمحے کی تلخی آج بھی ہر سال مصری قوم کو ڈنک مارتی ہے، 55 سال گزر جانے کے بعد بھی مصریوں کی ایک پوری نسل کے لیے یہ یاد سختی سے موجود رہی ہے، مصر اور دنیا میں بڑے بڑے واقعات رونما ہونے کے باوجود اس واقعہ نے عوامی دلچسپی کے ایک بڑے حصے پر قبضہ کر لیا۔ 55 سال پہلے جو نوجوان تھا وہ اب عمر کی ستر کی دہائی میں اس پر تفصیل سے غور کرتا ہے کہ کیا ہوا تھا۔
شکست انتہائی ذلت آمیز تھی، جو پمارے لیے قاہرہ یونیورسٹی کے سیاسیات کے طلباء کے طور پر، مصر کے دیگر تمام نوجوانوں کی طرح نہیں تھی، ہمیں اس زخم کی گہرائی اور خون بہنے کی حد کا علم تھا جس نے پیارے وطن کو تکلیف دی تھی۔ ہم ہجوم کے ساتھ باہر نکلے اور نعرے لگائے کیونکہ جارحیت کا صرف یہی حل تھا۔ شاید جواب کے درمیان ہی سوال پیدا ہوا کہ، جو کچھ ہوا وہ کیوں ہوا؟ پھر ایک اور سوال آیا کہ ہم کیا کریں؟ گورنریٹ منوفیہ کے شہر باجور سے قاہرہ تک پیدل طویل سفر کا یہ نقطہء آغاز تھا جس میں رہنما جمال عبدالناصر سے دو روز 9 اور 10 جون 1967 تک قیام کا مطالبہ کیا گیا تھا۔ اس مرحلے کے نوجوانوں کو اس بات پر متفق ہونے میں زیادہ دیر نہیں لگی کہ جو کچھ 5 جون کو ہوا اسے قبول نہیں کیا جا سکتا اور یہ کہ انکار کا تعلق تشخیص اور احتساب سے ہونا چاہیے۔ نہ تو لیڈر معصوم تھے، نہ ان کے آزاد ساتھی آگ سے بچ رہے تھے اور نہ ہی مصر مکمل طور پر ذمہ داری سے عاری تھا چنانچہ ملک نے اپنی سب سے اہم تاریخی ناکامیوں میں سے ایک کا تجربہ کیا۔ میں نے دوسروں کے ساتھ مل کر کپاس کی فصل کو بچانے کے لیے رضاکارانہ طور پر کام کیا جو حادثات میں تقریباً ضائع ہو چکی تھی، پھر یہ گروپ فوجی تربیت کے لیے چلا گیا جو اسکندریہ کے قریب دخیلہ میں ہوئی اور وہیں پر پہلی بار موت کو قریب سے دیکھا جب میرے چہرے کے سامنے سے گولی گزری جو ایک ساتھی کی طرف سے حفاظتی تدابیر اختیار کرنے میں کوتاہی کرنے سے چل گئی تھی۔
آنے والی خبروں کا انتظار کرنا روزمرہ کی عادت بن گئی، یکم جولائی کو "راس العش" کی لڑائی پورٹ فواد کے مضافاتی علاقے - پورٹ سعید شہر کے دوسری جانب سیناء میں - کے قریب ہوئی جب اسرائیلی بکتر بند گاڑیوں نے اس پر قبضہ کرنے کی کوشش کی، لیکن مصری تھنڈربولٹ فورس اسرائیلی حملے کو پسپا کرنے میں کامیاب ہو گئی۔ یہ واقعہ وہ چنگاری تھی جس کی وجہ سے نہر سویز کے دونوں اطراف میں تقریباً 3 سال تک جنگ چھڑ رہی جس نے قائد کی جدوجہد کے اختتام کو تشکیل دیا۔ اس کے بعد واقعات کا سلسلہ جاری رہا یہاں تک کہ ہم اکتوبر 1973 کی جنگ تک پہنچ گئے، جو عربوں اور مصریوں کی سب سے بڑی جنگ تھی، جب ہتھیاروں اور تیل نے مل کر خطے کی تاریخ میں ایک نئی شروعات کیں۔ لیکن یادوں سے اس تلخ واقعے کے 55 سال نہیں مٹائے گئے، "جھٹکا (النکسہ)" اور فتح کے درمیان کے 6 سالوں نے ہمیں اپنی "حدوں کو جاننا" سکھایا۔ سچ تو یہ ہے کہ ہمارے محلے کے لیے آفت فراموشی نہیں تھی، جیسا کہ نجیب محفوظ نے اپنی شاہکار تصنیف ’’ہمارے محلے کے بچے (أولاد حارتنا)‘‘ میں ذکر کیا ہے، بلکہ ہمارے افراد یا گروہوں کی جانب سے حدود سے آگاہی کا فقدان تھا۔ "حدود سے آگاہی" کے دو رخ ہیں؛ بیرونی نوعیت کا، "جیو پولیٹیکل" جو دوستی، دشمنی، جنگ اور اتحاد کا تعین کرتا ہے اور "جغرافیائی حکمت عملی" جو فوجی اور اقتصادی قوتوں کے توازن اور قیادت کے معیار پر مبنی ہے۔ دوسرا پہلو اندرونی ہے جو ریاست کی صلاحیتوں کو گزشتہ دہائیوں میں دنیا میں ہونے والی تبدیلیوں کے تناظر میں بغیر کسی کمی بیشی کے پیمائش کرنے کی صلاحیت پر مبنی ہے۔ پلوں کے نیچے بہت سا پانی بہہ چکا ہے، جیسا کہ جون کی جنگ کے بعد سے اکتوبر کی جنگ تک معروف ہے۔ دونوں جنگوں کا خلاصہ عربوں اور اسرائیلیوں کے درمیان جنگ کی موجودہ تعریف کا خاتمہ تھا جو کہ وجود کی خاطر، امن کے بدلے مقبوضہ اراضی کے مسائل حل کرنے کیلئے بات چیت کے آغاز اور مسئلہ فلسطین کا ایک اسرائیلی اور دوسری فلسطینی، دو ریاستی حل پر مبنی تصفیہ پر مشتمل تھی۔ درحقیقت سرحدوں کا ادراک صرف عربوں کو ہی نہیں بلکہ اسرائیل کو بھی تھا اور جون کی جنگ کے بعد جو کچھ ہوا وہ یہ ہے کہ اسرائیل کو تسلیم کرنے اور اس کے ساتھ مسائل کے وسیع محازوں پر معاملات کرنا، جس کی وجہ سے اسرائیل کو سیناء، اردن، لبنان اور حتی کہ فلسطین میں مقبوضہ عرب سرزمین سے نکلنا پڑا۔ سعودی عرب کی طرف سے تجویز کردہ تصفیہ کی تکمیل میں جو چیز رکاوٹ بنی وہ دونوں اطراف میں ایسی قوتوں کی موجودگی تھی جو اپنے مقاصد کے حصول میں طاقت کی حدود سے ابھی تک ناواقف ہیں۔
حیران کن بات یہ ہے کہ تنظیم "حماس"، جسے اسرائیل نے آزادئ فلسطین تنظیم کا مقابلہ کرنے کے لیے قائم کرنے کی ترغیب دی، نہ صرف اس تنظیم کو بلکہ فلسطینی اتھارٹی اور اوسلو معاہدے کو بھی کمزور کرنے کا باعث بنی، وہ تنظیم جسکا وجود بھی اسرائیل کے سبب سے ہے اس نے مسئلے کو مزید دشمنی میں لے جانے کی کوشش کی۔ اسرائیل کی جانب، دائیں بازو کی انتہا پسند قوتوں نے پورے ملک کو اپنی لپیٹ میں لے لیا ہے، اس کے ساتھ ساتھ ہر وہ چیز تباہ کر دی ہے جو دو ریاستی حل، باہمی امن کے ساتھ رہنے کی طرف لے جا سکتی تھی، اس کے برعکس یہ ایک ریاستی حل کی طرف لے جاتی ہیں جس کی خواہش نہ فلسطینی کرتے ہیں اور نہ اسرائیلی۔ اسرائیل کا اپنی آبادکاری کی پالیسی کو جاری رکھنا، زمینوں کو اپنے ساتھ ضم کرنا اور القدس (یروشلم) میں مقدس علاقوں کی انتظامیہ سے متعلق اردنی اسرائیلی امن معاہدے میں طے شدہ ضوابط کی خلاف ورزی، یہ سب بہت سی ان حدوں کو توڑ دیتا ہے جو 5 دہائیوں سے زیادہ عرصے کے دوران دوںوں اطراف نے طاقت کی حدود جاننے کے بعد حاصل کن تھیں۔
وہ نوجوان جس نے 55 سال پہلے جنگ اور امن میں زندگی گزاری تھی، وہ نئی حقیقت میں تمام حماقتوں اور مواقع پر غور کرتا ہے۔ جہاں دوسری جانب "حماس" کی طرف سے طاقت کی حدود کا ادراک نہ کرنے کی حماقت ہوتی ہے، جس کی اندرونی سیاسی ناکامی کی یہ حالت ہے کہ وہ ’’ابراہیمی امن‘‘ کے امکانات کا ادراک کرنےاور جغرفیائی سیاست و اسٹریٹجک حقیقت کو جاننے سے قاصر ہے، جو یہ کہتی ہے کہ دریائے اردن اور بحیرہ روم کے درمیان دو قومیں ہیں جو امن اور بقائے باہمی کے سوا ایک دوسرے سے الگ نہیں ہو سکتیں۔
بدھ - 16ذوالقعدہ 1443 ہجری - 5 1جون 2022ء شمارہ نمبر [15905]