کیا آپ خبریں پڑھتے ہیں؟ کیا آپ کچھ نروس یا افسردہ ہو جاتے ہیں؟ کیا آپ جنگوں اور بحرانوں کی خبروں کی بڑی تعداد کے درمیان مزید مثبت خبریں پڑھنا چاہتے ہیں؟ جنگوں کی خبروں سے لے کر معاشی اور زندگی کے بحرانوں کی خبروں تک، ’’کورونا‘‘ وبا سے گذرتے ہوئے کہ جس کی خبریں اب بھی ادھر ادھر سے سامنے آرہی ہیں، چاہے وہ پہلے کی نسبت کم ہو چکی ہیں, خبریں اکثر ہمیں بے چین اور مایوس کر دیتی ہیں۔ انٹرنیٹ اور سوشل میڈیا کے دور میں خبروں کا ایک بہت بڑا سيلاب ہے، چاہے ہم گھروں اور دفاتر سے باہر ہوں یا بازاروں میں، جب تک اسمارٹ فون ہمارے جیبوں اور ہاتھوں میں ہوں ہم خود ان کی پیروی کرتے ہیں۔
"رائٹرز انسٹی ٹیوٹ" کی طرف سے کل جاری کردہ ایک رپورٹ میں بتایا گیا ہے کہ لوگوں کی بڑھتی ہوئی تعداد (دس میں سے چار افراد) بعض اوقات خبروں سے گریز کرتی ہے کیونکہ یہ ان کے مزاج پر منفی اثر ڈالتی ہیں۔ اگرچہ ممالک اور عمر کے مختلف گروپوں کے درمیان تناسب مختلف ہوتا ہے، لیکن رپورٹ کے مطابق بہت سے ممالک میں خبروں میں دلچسپی عام طور پر کم ہوئی ہے، جس کی اہمیت یہ ہے کہ یہ چھ براعظموں اور 46 مارکیٹوں کے ڈیٹا پر مبنی ہے۔
اس ضمن میں کئی عوامل کارفرما ہیں، جن میں بعض لوگ خبریں پڑھنے سے گھبراتے ہیں، یا پھر ان میں سے صرف چنیدہ کو ہی پڑھتے ہیں، جبکہ سب سے پہلے وہ گروپ آتا ہے جو یہ سمجھتا ہے کہ خبریں ان کے مزاج پر منفی اثرات مرتب کرتی ہیں اور انہیں افسردہ کر دیتی ہیں۔ نفسیاتی پہلو یقینا اس رحجان کو سمجھنے میں مدد دیتا ہے کیونکہ انسان فطری طور پر عموما بری خبروں سے خود کو بچاتا ہے۔
"رائٹرز انسٹی ٹیوٹ" کی رپورٹ میں بتایا گیا ہے کہ خبروں سے گریز کرنے والوں کے تناسب میں اضافہ ہوا ہے، کیونکہ اکثر یا بعض اوقات منتخب اجتناب دوگنا ہو گیا ہے، مثال کے طور پر گزشتہ پانچ سالوں میں برازیل میں (54 فیصد)، برطانیہ میں (46 فیصد) کمی واقع ہوئی ہے، جبکہ فہرست میں اگلے نمبروں پر امریکہ، آئرلینڈ، آسٹریلیا اور فرانس جیسے ممالک آتے ہیں۔ عام طور پر اس زمرے میں مختلف ممالک میں اور مختلف شرحوں میں اضافہ ہوا ہے۔
دوسرا، کچھ لوگ خبروں میں تھکا دینے والی تکرار کی شکایت کرتے ہیں، جس سے وہ بور ہو جاتے ہیں۔ "خبروں سے تھکاوٹ" کا رجحان معروف ہے، خاص طور پر ایسے واقعات میں جو طویل عرصے تک چلتے ہیں، جیسے کہ جنگیں، جن کی خبریں دہرائی جاتی ہیں اور بہت سے لوگ انہیں پڑھنے سے منہ موڑ لیتے ہیں یا ان کو منتخب اور وقفے وقفے سے فالو کرتے ہیں۔
تیسرا، سوشل میڈیا پر پھیلی ہوئی خبريں، متضاد بیانیوں اور گمراہ کن خبروں کی کثرت کی وجہ سے خبروں پر اعتماد میں کمی کا مسئلہ ہے، اور یہ ایک ایسا رجحان بن گیا ہے جو بہت سے لوگوں کو پریشان کرتا ہے۔ "رائٹرز انسٹی ٹیوٹ" کی رپورٹ میں کہا گیا ہے کہ اس نے اس سال 46 میں سے 21 مارکیٹوں یا مطالعہ میں شامل ممالک میں اعتماد کی سطح میں کمی کا جائزه ليا۔ ریاست ہائے متحدہ امريکہ میں کمی کی شرح 26 فیصد تھی، جو گزشتہ سال کے مقابلے میں تین فیصد پوائنٹس کا اضافہ ہے اور یہ کمی یورپ سے لے کر ایشیا، افریقہ اور لاطینی امریکہ تک مختلف شرحوں پر ریکارڈ کی گئی ہے۔ غلط خبروں کے مسئلے کے بارے میں رپورٹ نے کہا:"اس سال کے سروے میں ہمیں آن لائن غلط خبروں اور سوشل میڈیا کے وسیع استعمال کے خوف کے درمیان ایک ربط ملا۔ مارکیٹوں میں نصف سے کچھ زیادہ (54 فیصد) نے کہا کہ جب خبروں کی بات ہوتی ہے تو وہ فکرمند ہوتے ہیں کہ انٹرنیٹ پر کیا حقیقت ہے اور کیا جعلی ہے۔" لیکن وہ لوگ جو کہتے ہیں کہ وہ بنیادی طور پر سوشل میڈیا کو خبروں کے ذریعہ کے طور پر استعمال کرتے ہیں ان لوگوں کے مقابلے میں (61 فیصد) زیادہ فکر مند تھے جنہوں نے اسے بالکل استعمال نہیں کیا (48 فیصد)۔"
چوتھا، وقت ہے جو زندگی کے تقاضوں, خبر رساں اداروں اور ذرائع ابلاغ کی بڑی تعداد کے سامنے بہت دباؤ کا شکار ہو چکا ہے، یہ لوگوں کی ان خبروں کی پیروی کرنے کی صلاحیت کو محدود کرتا ہے جو 24 گھنٹے دستیاب ہو چکی ہیں اور مقابلہ کر سکتی ہیں۔
پانچواں، خبروں کی مشکل جیسے کرپٹو کرنسی اور منی مارکیٹ کی خبریں، حراستی مقدمات کی تفصیلات، بعض بحرانوں کے پس منظر، جن کی تفصیلات کو حاصل کرنے میں بعض لوگوں کو چیلنج درپیش ہوتا ہے، اس لیے وہ ان سے اجتناب کرتے ہیں۔ لہٰذا کچھ میڈیا بعض خبروں کی وضاحت اور تفصیل کے لیے عکاسیوں اور سوالات و جوابات کا سہارا لے رہے ہیں تاکہ وصول کنندگان کے لیے اسے مزید قابل رسائی بنایا جا سکے۔
"رائٹرز انسٹی ٹیوٹ" کی رپورٹ میں دیگر عوامل کی طرف اشارہ کیا گیا ہے، جیسے کہ وہ لوگ جو کچھ خبروں کو چن چن کر گریز کرتے ہیں کیونکہ وہ اسے ان دلائل اور مباحثوں میں شامل کرتے ہیں جو وہ نہیں چاہتے، یا وہ لوگ جو کہتے ہیں کہ افسردہ کرنے والی خبریں انہیں چیزوں پر اثر انداز ہونے اور تبدیل کرنے کے لیے بے اختیار ہونے كا احساس دلاتی ہیں، یا یہ کہ وہ خبروں كو اپنے مفادات اور تحفظات سے دور پاتے ہیں۔
منفی خبروں کی ذمہ داری میڈیا پر نہیں ہوتی، کیونکہ یہ خبریں نہیں بناتا بلکہ اسے منتقل کرتا ہے اور اس کے لیے ہمیں کوئی بہانہ مل سکتا ہے لیکن بدلے میں یہ خبروں کے ایجنڈے کو متاثر کر سکتا ہے اور ایک قسم کا توازن پیدا کرنے کے لیے زیادہ مثبت خبروں کا انتخاب کر سکتا ہے، جو کہ بڑھتے ہوئے دباؤ اور اداس خبروں کے وقت میں میرے اندازے کے مطابق اہم ہے۔ یہ بات قابل توجہ رہی ہو گی کہ کچھ خبر رساں اداروں نے خواہ تحریری ہو، بصری ہو یا آڈیو، ايسے موضوعات کی کوریج میں اضافہ کرنا شروع کر دیا ہے جو لوگوں کو امید کا احساس دلاتے ہیں، اور دیگر جو لوگوں کے ماحولیات اور آب و ہوا کے مسائل سے لے كر سائنس و ٹیکنالوجی کی ترقی تک ان کی توجہ کو چھوتے ہیں۔
خبروں کی پیروی كرنا میڈیا کا ایک بنيادى کام بنا ہوا ہے، جسے خاص طور پر اس کے پیروکاروں کی اکثریت بحران کے وقت میں تلاش کرتی ہے۔اس حوالے سے "رائٹرز انسٹی ٹیوٹ" کی رپورٹ میں بتایا گیا ہے کہ "کورونا" کی وبا، یوکرین پر حملے اور مختلف بحرانوں جیسے واقعات کا پے در پے ہونا پیشہ ور میڈیا کی اہمیت کو واضح کرتا ہےاور یہ ایسا کردار ہے جو ایک ایسے وقت میں تیزی سے اہم ہوتا جا رہا ہے کہ جب سوشل میڈیا اور آن لائن اسپیس میں دیگر پلیٹ فارمز پر پھیلنے والی غلط معلومات کا مسئلہ بڑھتا جا رہا ہے۔
میڈیا اداروں کو درپیش چیلنج ایک ایسا فارمولہ تلاش کرنا ہے جو ایک ایسا توازن حاصل کرے جو خبروں کے پیروکاروں میں سے کچھ کو مایوسی کی وجہ سے الگ کیے بغیر، یا مختلف اور متنوع مزاج رکھنے والے نوجوانوں کے ایک حصے کو کھوئے بغیر وه مختلف پلیٹ فارمزاور مختلف وسائل کے ذریعے خبروں کی پیروی کريں۔ اکثر اوقات، سب سے اہم خبریں وہی ہوتی ہیں جو کچھ لوگوں کو خبروں کی پیروی کرنے سے گریزاں کرتی ہیں یا خبروں کی تھکاوٹ اور مایوسی کی شکایت کرتی ہیں، جیسے جنگیں، سیاسی و اقتصادی بحران، قدرتی یا موسمی آفات۔
میڈیا نے مختلف ادوار میں بہت سے چیلنجز کا سامنا کیا ہے اور ان پر قابو پاتے ہوئے بدلتے ہوئے حالات سے ہم آہنگ ہونے اور حل ایجاد کرنے کی اس کی صلاحیت ہمیشہ سے رہی ہے۔
جمعرات-17 ذوالقعدہ 1443 ہجری، 16 جون 2022ء، شمارہ نمبر (15906)