سوسن الشاعر
TT

بهارت اور خلیج... سیاسی مفادات اور انسانی تعلقات

نئی بین الاقوامی تبدیلیوں اور بدلتے ہوئے اتحادوں کی روشنی میں، بھارت خلیجی ممالک کے لیے بہت سی وجوہات کی بناء پر انتہائی اہمیت کا حامل ہے۔ اس کے ساتھ نہ صرف دو طرفہ تجارتی تبادلے کا حجم 154 بلین ڈالر سالانہ ہے، بلکہ ہمارے لیے بھارت کی ضرورت ہماری خوراک کی حفاظت کی ضرورتوں میں سے ایک ہے۔خلیجی ممالک کے لیے خوراک سپلائى کر نے والوں میں بھارت ایک اہم ترین ملک ہے، جہاں سے ہم اناج، چاول اور گوشت،درآمد کرتے ہیں. تیل کے سب سے اہم درآمد کنندگان میں سے ایک ہونے کے علاوہ، خلیجی ممالک میں بھارتی مزدوروں کی تعداد نو ملین تک پہنچ چکی ہے اور ان کی اپنے ملک بھیجی جانے والی رقم 89 بلین ڈالر ہو چکی ہے، يعنی یہ ان کے ملک کو  بھیجی جانے والی غیر ملکی ترسیلات کا 65 فیصد سے زیادہ ہے۔
لیکن بھارت، عرب خلیجی ممالک کے لیے نئے بین الاقوامی تعاملات میں ایک اہم برابری والا ملک ہے اور حال ہی میں خلیجی ریاستوں نے یہی محسوس کیا ہے، خاص طور پر ایک طرف چین اور روس،  اور دوسری طرف امریکہ اور مغربی قطبوں کے درمیان، بھارت کے دونوں کے ساتھ مشترکہ مفادات ہیں، جیسےکہ ہمارے ہیں۔ اسى لیے اس سیاسی مساوات  میں اس کے ساتھ ہمارے مفادات بہت زیادہ اور متعدد ہیں، چنانچہ ہمیں اس بار اس کے ساتھ تعلقات پر ایک نئی اسٹریٹجک جہت سے نظر ثانی کرنے کی ضرورت ہے۔
تعلقات میں بہت بہتری دیکھنے میں آئی جب دونوں فریقوں کو یہ احساس ہوا کہ ان کے درمیان مفادات اور مشترکات اعداد وشمار سے کہیں زیادہ ہیں، خاص طور پر اس وبائی مرض کے دوران جس نے پوری دنیا کو اپنی لپیٹ میں لے لیا۔ جب "ڈیلٹا" میوٹیشن بڑے پیمانے پر پھیل گیا اور بہت سی اموات کا باعث بنا تو سعودی عرب کی سربراہی میں خلیجی ریاستيں بھارت کے ساتھ کھڑی ہوئيں اور  اسے کئی ٹن آکسیجن سلنڈر فراہم کئے جو اس وقت نایاب ہو گئے تھے۔ جب حال ہی میں گندم کا بحران آیا تو سعودی عرب اور متحدہ عرب امارات کو بھارتی گندم کی برآمد پر پابندی سے مستثنی رکھا گیا، کیونکہ دونوں فریق (عرب خلیجی ریاستیں اور بھارت) اپنے درمیان اور خاص طور پر آنے والے مراحل میں اس تعاون کی اہمیت کو جانتے ہیں۔
اگرچہ بھارت میں مسلمانوں کی تعداد 200 ملین تک پہنچتی ہے اور يہ اسلامی ممالک انڈونیشیا اور پاکستان کے بعد تیسرے نمبر پر سب سے بڑی تعداد ہے، لیکن بھارت میں مسلمان اقلیت شمار ہو تے ہیں اور ان کا تناسب آبادی کے 15 فیصد سے زیادہ نہیں ہے، اور یہیں سے مسئلہ شروع ہوتا ہے، اور یہ عام طور پر دنیا کی تمام اقلیتوں کے لیے مسئلہ ہے۔ کچھ لوگ سوچتے ہیں کہ ان تعلقات کو دوبارہ بحال كرنے اور انہیں دستاویزی شکل دینے میں سب سے اہم رکاوٹ بھارت میں ہندوؤں اور مسلمانوں کے درمیان بار بار پیدا ہونے والے بحران ہیں، جو بار بار اور شدت اختیار کر رہے ہیں، خاص طور پر دائیں بازو کی قوم پرست بھارتیہ جنتا پارٹی کی موجودگی سے، جس کے ارکان کی بڑی تعداد انتہا پسندوں کی ہے۔ لیکن يہ مسئلہ یہیں پرنہیں رکتا، بلکہ ان کی موجودگی سے اس میں اضافہ ہوتا ہے جو اسے خلیج اور بھارت کے درمیان تعلقات میں بہتری،اس کی مضبوطی اور پائیداری كو مزید خراب کرتے ہیں۔
ان اطراف میں ایک واشنگٹن ہے، جو بھارت کو اپنی پالیسی کی آزادی اور چین-روس کے محور کی طرف جھکاؤ کے  باوجود اپناتا ہے، خاص طور پر حال ہی میں روس پر لگائی گئی پابندیوں کی تعمیل کرنے میں ناکامی اور روسی تیل كو  بھارتی کرنسی میں درآمد كرنا، اسی لیے امریکی محکمہ خارجہ نے حالیہ بحران میں اپنا کردار ادا کیا،اور محکمہ خارجہ کے ترجمان نیڈ پرائس نے صحافیوں کو بتاتے ہوئے انہوں نے کہا: "ہم بی جے پی کے دو عہدیداروں کی طرف سے دیئے گئے جارحانہ بیانات کی مذمت کرتے ہیں اور ہمیں پارٹی کی جانب سے عوامی سطح پر ان بیانات کی مذمت کرتے ہوئے دیکھ کر خوشی ہوئی ہے۔"
امریکی اہلکار نے مزید کہا کہ: "ہم منظم انداز سے بھارتی حکومت کے ساتھ اعلیٰ سطحوں پر انسانی حقوق بشمول مذہب یا عقیدے کی آزادی کے تحفظات اٹھاتے ہیں، ہم بھارت کو انسانی حقوق کے احترام کو فروغ دینے کی ترغیب دیتے ہیں۔"
عجیب بات یہ ہے کہ امریکی محکمہ خارجہ نے اس وقت فرانس یا بیلجیئم سے تشویش کا اظہار نہیں کیا جب انہوں نے ہمارے رسول كريم (ﷺ) کی یہی توہین کی تھی اور اس وقت عقائد کے تحفظ اور احترام کے لیے کوئی اقدام کیا، تاکہ یہ ثابت کیا جا سکے کہ جو چیز اسے متحرك كرتی ہے وہ اقدار نہیں بلکہ صرف سیاسی مفادات ہیں اور یہ کہ بھارتی گلی کوچوں كو بھڑکنا اور بھارتی خلیجی تعلقات کو کشیدہ کرنا ان بیانات کے محرکات میں سے ایک ہے۔
دوسری جہتیں جو خلیج اور بھارت کے درمیان تعلقات کی بہتری سے ناراض ہیں (جیسے دشمن بھائی) اور ہمارے درمیان فاصلہ بڑھانے میں پاکستان میں کچھ لوگوں کا کردار شامل ہے، اس کے علاوہ سوشل میڈیا کو "سوائے_محمد_اے_مودی" کے ہیش ٹیگ کے ساتھ متحرک کرنے میں بھی ان کا کردار ہے، جس سے کوئی بھی لاعلم نہیں ہے۔
اور ہمیں اخوان کی قیادت میں مذہبی گروہوں کو نہیں بھولنا چاہیے جو بھارت کو مشکل ممالک میں سے ایک سمجھتے ہیں، اس كى وجہ مشرقی ایشیائی اسلامی ممالک کے محور سے اس کی دوری ہے جہاں یہ گروہ سرگرم ہے، یہ اس پر مسلسل حملوں کی ایک وجہ ہے۔ اگر ہم اس میں اخوان کے میڈیا چینلز کو شامل کریں تو آپ تعلقات کی خرابی سے فائدہ اٹھانے والوں کا حجم اور ان کے ٹولوں کا وسیع پھیلاؤ دیکھیں گے...آخر میں ليكن آخرى نہیں بھارتی سركارى خارجہ میڈیا سيل کی کمزوری ہے۔
یہ ہمارے مشترکہ مفادات کا تقاضا نہیں ہے کہ ان اطراف کو ان ہنگامی بحرانوں سے فائدہ اٹھانے کا کوئی موقع نہ دیا جائے، بلکہ یہ عموما خلیجی اور بھارتی عوام کے درمیان تاریخی رشتہ ہے جس نے ان پرامن لوگوں کی فطرت کو اجاگر کیا جو ديگر ایشیائی عوام کے مقابلے تشدد اور جرائم میں کم ملوث ہیں، جس کے لیے ہندوستانی حکومت کو اس بات کا خیال رکھنا چاہیے کہ یہ اس کے مسلمانوں کی بیرونی توسیع ہے،  اس کے علاوہ بھارت کے اسلامی دنیا کے ممالک کے ساتھ مفادات اس بات  کا تقاضا كرتے ہیں کہ ہم اپنی پالیسی اپنے مفادات کے مطابق بنائیں نہ کہ دیگر بیرونی اطراف کے فائدے کے مطابق۔

اتوار-27 ذوالقعدہ 1443 ہجری، 26 جون 2022ء، شمارہ نمبر (15916)