ایميل امين
TT

سعودی عرب... لوگوں کی خاطر جدت

چند روز قبل ولی عہد پرنس محمد بن سلمان نے مملکت میں تحقیق، ترقی اور اختراع کے لیے امنگوں اور ترجیحات کے خاکہ کا اعلان کیا، جامع قومی حکمت عملی کے بنیادی ستونوں کے طور پر جس کا باقاعدہ اعلان جلد کیا جائے گا۔
انسان اس وژن کی جامعیت پر رک جاتا ہے جو اس کے محوروں اور ترجیحات کی ترتیب کو ظاہر کرتا ہے، یہ انسان اور اس کی صحت سے شروع ہو کر ماحولیات، جو کرہ ارض پر زندگی کے لیے سب سے بڑا خطرہ اور چیلنج بن چکا ہے، اس کے تحفظ کی پائیداری پر کام اور پھر شہریوں کی بنیادی ضروریات کر پورا کرتے ہوئے توانائی، صنعت اور مستقبل کی معیشت میں اضافہ تک پہنچتا ہے۔
اپنی پرجوش تقریر میں شاہی وژن 2030 کے سرپرست، ولی عہد نے توجہ مبذول کرائی جو کہ تبدیلی اور بدلاؤکے وقت میں سعودی عرب کے سب سے بلند اور سب سے زیادہ مفیدانجن اور ابھرنے کی  راہ  پر ایک نئے ورلڈ آرڈر کے ساتھ رابطے کی نمائندگی کرتا ہے۔ اس وژن میں مملکت جن دو باہم مربوط اور لازم و ملزوم امور کو اہمیت دیتی ہے وہ سائنسی تحقیق پر خرچ کرنا اور جدت اور تجدید کے فلسفے کو گہرا کرنا ہیں، سائنسی اور معروضی وژن کے ساتھ دونوں معاملات پر بحث کرنے کے لیے ایک وقفے کی ضرورت ہے۔
پرنس محمد بن سلمان نے یقین دہانی کی کہ  2040 میں تحقیق، ترقی اور اختراع پر سالانہ خرچ کل پیداوار کا 2.5 فیصد تک ہو جائے گا۔ پائیدار اقتصادی ترقی اور حکمت عملی کے فیصلوں کو منطقی بنانے کے سب سے اہم محرکات میں سے ایک سائنسی تحقیقی بنیاد کو وسعت دینے کے لیے اخراجات کرنا ہے، جو کہ دنیا کے تمام ممالک کے لیے سیاسی، اقتصادی اور سماجی استحکام کے حصول کے لیے ہے۔
الیکسو (ALECSO) کی رپورٹس پر سرسری نظر ڈالیں جو سائنسی تحقیق پرخرچ کرنے والے ممالک کی درجہ بندی کو  ظاہر کرتی ہے،  تو ریاست ہائے متحدہ امریکہ کو اہرام کی چوٹی پر پائیں گے، اس کا مطلب ہے کہ امریکہ کی خودمختاری اور قیادت کے پیچھےسائنسی فکری عروج تھا اور اب بھی ہے۔
اس کے بعد چین آتا ہے اور یہ اگلی قطبی دنیا میں راکٹ کی تیزی کے ساتھ اس کے عروج کی وضاحت کرتا ہے، سائنسی تحقیق نے چین کو بری، بحری اور ہوائی اعتبار سےایک ایسی دنیا میں  زیادہ محفوظ بنا دیا ہےجس کی مصروفیات میں روز بہ روز تیزی آ رہی ہے۔ اس کے بعد ہم یورپی یونین، جاپان اور جرمنی کو دیکھتے ہیں۔
سائنسی تحقیق اور اس پر زیادہ توجہ دینے کا مطلب ہے کہ مملکت کے دستیاب قدرتی وسائل تیل اور گیس، سورج اور ہوا سے قابل تجدید توانائی  سے زیادہ سے زیادہ استفادہ کرنا، اسٹریٹجک محل وقوع  سے پانی کو صاف کرنے کا موقع حاصل کرنااورایسے وقت میں کہ جب دنیا سپلائی چین میں رکاوٹوں کا شکار ہے قابل کاشت علاقوں سے جہاں اناج کی کاشت میں زیادہ سے زیادہ اضافہ کیا جا سکتا ہے قلت کا شکار ممالک کو کامیاب تجربہ فراہم کرنا شامل ہے۔
دوسرا معاملہ ولی عہد کے اس یقین سے جڑا ہوا ہے کہ جدت کا فلسفہ تخلیقی ترقی اور سیاسی و اقتصادی کامیابیوں کو جمع کرنے کے لیے محفوظ راستہ ہونا چاہیے، کیونکہ دونوں لازم و ملزوم ہیں۔ جدت کے بارے میں بات کرنا نہ تو زبان کی لغویات ہے اور نہ ہی لکڑی کی زبان، بلکہ یہ ایک موجودہ حقیقت ہے جو قوموں اور لوگوں کی ترقی کو آگے بڑھانے میں بہت حیرت انگیز کردار ادا کرتی ہے۔ اس میں کوئی شک نہیں کہ ترقی یافتہ ممالک میں اقتصادی پیداوار کا سب سے بڑا حصہ ان تکنیکی اختراعات کی وجہ سے ہے جن کا انسانیت نے پچھلی ڈیڑھ صدی کے دوران مشاہدہ کیا ہے۔ دنیا قول و فعل میں جدت اور دانشورانہ نظام کی مرہون منت ہے،جو جدت کے راستے میں سرمایہ کاری کو محفوظ بناتے ہیں۔
مثال کے طور پر مملکت کے پھیلے ہوئے ریگستانوں کی وسیع و عریض وسعتوں کو ہی لے لیجئے کہ کچھ اختراعی خیالات کیسے صرف ان ہی علاقوں میں جہاں قدرت کا جادو بے مثال ہے ایک عالمی سیاحت پیدا کر سکتے ہیں اور کیسے یہاں موسم سرما میں سالانہ میلے منعقد کیے جا سکتے ہیں کہ جہاں کی آب و ہوا اور لوگوں کی گرم جوشی لاکھوں سیاحوں کو اپنی طرف متوجہ کرنے کے قابل ہے جو سفید برف اور دانت پیسنے سے بھاگ رہے ہیں۔
ترقی اور اختراع کے لیے مملکت کا وژن عملی اور اپنے آپ میں بند نظر نہیں آتا بلکہ جو چیز اس کی صلاحیتوں اور اس کی مادی و روحانی حیثیت کی روشنی میں اسے ممتاز کرتی ہے وہ انسانیت کے لیے اس کی تخلیقی کشادگی ہے۔ اس کے روشن افق نہ صرف سعودی عرب کے اندر بلکہ کسی بھی وقت اور کسی بھی جگہ انسانیت کی خاطر قربان ہو جاتے ہیں خواہ یہ اس کے حقوق میں سے ہی کیوں نہ ہو۔ نتیجہ خیز محبت اپنے آپ سے شروع ہوتی ہے۔
مملکت میں ترقی اور اختراع کے لیے مکمل سٹریٹجک وژن میں جو جلد واضح ہو جائے گا وہ ہمیں اس بات کی یاد دلاتا ہے جو مشہور معاشی مورخ جوئل موکیر نے اپنی مشہور کتاب The lever of Riches (دولت کا لیور) میں کہا تھا کہ تاریخ میں جدت سب سے اہم استثناء ہے۔تکنیکی ترقی کا راستہ، جس کے بعد عالمی پیداوار میں تیزی آئی تھی اسے ماہرین اقتصادیات تحفے کی دنیا کہتے ہیں، یعنی حاصل شدہ پیداوار میں اس طرح اضافہ جو اس پیداوار کو حاصل کرنے کے لیے ضروری محنت اور لاگت سے زیادہ ہو۔
 سائنسی تحقیق پر مملکت میں اخراجات میں اضافے اور جدید اختراعی وژن کے کرسٹالائزیشن کے درمیان بیرونی دنیا کے ساتھ اکٹھا ہونے اور تمام شعبوں میں بھرپور تجربات کے تبادلے کے امکانات ہیں، چاہے وہ بین الاقوامی تحقیقی مراکز کے ساتھ تعاون کے ذریعے ہو، یا سائنسی اور فکری صلاحیتوں کو راغب کرنے کے ذریعے، جو سعودی نوجوانوں کو دنیا کے مشرق و مغرب سے موثر تجربات حاصل کرنے کا موقع فراہم کرتے ہیں۔
سعودی عرب میں عالمی مسابقت کو بڑھا کر اور تیل کے کنویں سے دور کل ملکی پیداوار میں تقریباً 60 بلین سعودی ریال کا حصہ ڈال کر سعودی عرب میں امن و سلامتی کی عکاسی کی جائے گی۔لوگوں کے لیے جدت کی دنیا میں ایک بار پھر خوش آمدید۔

بدھ - 7 ذی الحجہ 1443ہجری - 06 جولائی 2022ء شمارہ نمبر [15926]