عبد المنعم سعید
TT

ہم اسرائیل کے ساتھ کیا کریں؟

مجھے معلوم نہیں کہ یہ وقت سوچنے کے لیے مناسب ہے کہ جس کے بارے میں سوچنا چاہیئے، یا یہ بہتر ہے - جیسا کہ ہم عادی ہیں - بہت سی حساسیتوں اور شرمندگیوں سے ڈھکے ہوئے پیچیدہ معاملے کو چھوڑ دینے کے، تاکہ اس سے نمٹا جائے کہ کیا فوری اور خطرناک ہے ؟ لیکن جس چیز نے فوری سوال پیدا کیا ہے اس کے پیچھے بڑا مسئلہ یہ ہے کہ اسرائیل اور فلسطین کے مسئلے سے نمٹنے کے معاملہ کو امریکی عرب جدہ سربراہی اجلاس میں اٹھایا جائے گا۔
یقیناً یہ ہمیشہ سے ممکن ہے کہ ایسے موضوعات اور مسائل جو تمام متعلقہ فریقوں کے قومی امن اور ان کی سربراہی اجلاس میں شرکت کے لیے خطرے سے بھرپور ہوں ایسے حالات کو اس بات پر چھوڑ دیا جائے جس پر عام طور پر اتفاق کیا جاتا ہے۔ ہر کوئی "دو ریاستی حل" چاہتا ہے اور اس قسم کے جزوی مذاکرات کا مطالبہ کرتا ہے جس سے ہر فریق اپنے پرانے موقف کو دہرائے اور غزہ میں جنگ بندی کو برقرار رکھے۔ فہرست طویل یا مختصر تو ہو سکتی ہے لیکن ہر صورت اس میں معاملے کا ریکارڈ درج ہوگا اور پھر سب ایجنڈے کی طرف لوٹ آئیں گے۔ لیکن یہ سب کچھ سربراہی اجلاس میں مفید ہو سکتا ہے، مگر یہ اس سوال کی ضرورت کو کبھی نہیں روک سکے گا کہ: "ہم اسرائیل کے ساتھ کیا کریں؟"، چاہے ہم اچھی طرح جانتے ہوں کہ ہم فلسطینی کاز کے لیے کیا چاہتے ہیں،  جہاں جون 1967 کی سرحدوں پر فلسطینیوں کے لئے ایک آزاد ریاست کے حق کی یقین دہانی ہو جس کا دارالحکومت مشرقی یروشلم (القدس) ہو۔ لیکن یہ ہمیں سوال اور اس کا جواب دینے کی کوشش سے بری نہیں کرے گا۔ حتی کہ اس بارے میں سوچنا معمول سے زیادہ ضروری اور شاید خطے میں سب سے اہم ہے تاکہ اسے سربراہی اجلاس میں اٹھایا جا سکے۔
پہلی حقیقت جو ہمیں اس طرف لے جاتی ہے وہ یہ ہے کہ سربراہی اجلاس میں اسرائیل کے ساتھ تعلقات کو معمول پر لانے کے لیے امریکی مطالبہ ہوگا۔ دوسرا درحقیقت پانچ عرب ممالک اور اسرائیل کے درمیان مختلف درجات اور گہرائی پر مبنی امن اور  معمول کے تعلقات ہیں۔ یقیناً دیگر شریک عرب ممالک خود کو عبرانی ریاست کے ساتھ حالت جنگ ​​میں نہیں سمجھتے۔ تیسرا یہ کہ اسرائیل ایران کے ساتھ محاذ آرائی، پورے خطے میں توانائی اور ٹیکنالوجی اور مختلف قسم کے سیکورٹی مسائل کا حصہ بن چکا ہے۔ چوتھا یہ کہ اسرائیل، اب اس کے ساتھ جو بھی تعلقات ہیں، ایک غیر معمولی صورت کی نمائندگی کرتا ہے، کیونکہ وہ ایک مسلح ترقی یافتہ جوہری ریاست ہے، جس نے عرب سرزمین پر قبضہ کر رکھا ہے اور مقبوضہ علاقوں میں آباد کاری کر رہی ہے، اس کی حکمرانی میں فلسطینیوں کے ساتھ مختلف صورتوں میں نسلی بنیادوں پر امتیازی سلوک برتا جاتا ہے۔ پانچواں یہ کہ اسرائیل کے مغرب کے ساتھ خصوصی تعلقات ہیں۔ یہ درست ہے کہ سربراہی اجلاس میں شریک تمام ممالک کے مغرب اور امریکہ کے ساتھ قریبی تعلقات ہیں۔ لیکن ان قریبی تعلقات میں بڑا فرق ہے جو گہری دلچسپیوں کو ظاہر کرتے ہیں اور دوسرا جہاں مفادات گہرے جذبات کے ساتھ گھل مل جاتے ہیں۔ یہ پانچ حقائق ہیں اس کے علاوہ اس میں شامل کرنے کے لیے جو کچھ ہے یکساں یا مربوط نہیں ہے اور یہ فیصلہ سازوں کے لیے پورے معاملے کو ایک طرف لے جانے کے لیے کافی سر درد کا باعث بنتا ہے۔ اس موضوع میں دلچسپی رکھنے والوں کے لیے یہ کوئی نیا واقعہ نہیں ہے، بشمول وہ ماہرین تعلیم جن سے "مرکزی مسئلہ" زندگی بھر لیا گیا ہے۔
اپنے پرانے کاغذات میں مجھے ایک اہم لمحہ ملا، جب میں 20 جولائی 2004 کو امریکی سینیٹ کی کمیٹی برائے خارجہ تعلقات کے سامنے گواہ بنا (جو کوئی بھی اس دلچسپ سیشن کے بارے میں مزید تفصیلات چاہتا ہے، وہ اسے یہاں پائے گا:
Detours and Disengagements: Hearing Before the Committee on Foreign Relations, United States Senate, One Hundred Eighth Congress, Second Session-July 2004-20
اس وقت کمیٹی کے سربراہ ریپبلکن پارٹی سے رچرڈ لوگر تھے اور کمیٹی میں اقلیتی رہنما ڈیموکریٹک سے جوزف بائیڈن تھے۔ جو لوگ موجود تھے وہ دونوں پارٹیوں کیے معززین تھے، ان میں سے کئی امریکی خارجہ سیاست میں نمایاں رہ چکے تھے۔ پینل کے گواہ چار تھے: ڈیوڈ ملر، ڈینس راس، ڈیوڈ سیٹر فیلڈ اور ان سطور کے مصنف جو اس وقت معروف  "بروکنگز" انسٹی ٹیوشن کے "سبان" سینٹر میں وزٹنگ اسکالر تھے۔ تب وقت اس قدر نازک نہیں تھا جتنا اب ہے۔ امریکہ ایک سال پہلے عراق پر حملہ کر چکا تھا، اس کا مطلب امریکی سیاست اور علاقائی و بین الاقوامی نظاموں کے نتائج پر "نو قدامت پسندوں" کا کنٹرول تھا۔ ان نتائج میں سے ایک "روڈ میپ" کے ذریعے امن کا حصول تھا جس کے نفاذ کی نگرانی "کوارٹیٹ" کرتی تھی جو ریاست ہائے متحدہ امریکہ، روسی فیڈریشن، یورپی یونین اور اقوام متحدہ کی تشکیل کردہ تھی۔
اس وقت ہوا یہ تھا کہ ان سطور کے لکھنے والے کے علاوہ تمام مقررین گواہ، سائل اور سینیٹر تھے جو اب صدر بن چکے ہیں۔ ان کے مقالے کبھی کبھی امن کی طرف اچھے ارادوں کا اظہار کرنے والے "حکمت عملی" تھے، لیکن عملی طور پر خاص کر بائیڈن کی طرف سے فلسطینیوں پر الزام واضح تھا، کسی کو یقین نہیں تھا کہ فلسطینیوں کی نمائندگی کون کرتا ہے اور کیا صدر یاسر عرفات مخلص ہیں، جس چیز کی ضرورت تھی وہ فلسطینیوں کو تربیت دینے کی تھی کہ اگر وہ اسرائیل کے ساتھ اچھے تعلقات رکھتے ہیں تو وہ غیر واضح چیز کیسے حاصل کر سکتے ہیں۔ درحقیقت سیشن میں بہت سے لوگوں کے لیے عراق پر امریکی قبضے کے بارے میں بات کرنا ممکن تھا لیکن فلسطین یا شام میں اسرائیلی قبضے کی بات ناقابل سماعت تھی۔ میرے نزدیک وہاں تین اسٹریٹجک نکات تھے؛ پہلا یہ کہ فلسطین - اسرائیل تنازعہ اسٹریٹجک ہے، بالکل اسی طرح جیسے "جرمنی کا مسئلہ" جس سے یورپ دو صدیوں تک دوچار رہا۔ فلسطینی یہودی مسئلہ ایک ایسے خطے کا حصہ ہے جس نے دنیا کے تقریباً 25 فیصد تنازعات پر اجارہ داری قائم کر رکھی ہے۔ پوری ایک صدی بیت چکی ہے اس کے باوجود خدشہ ہے کہ ’’فلسطینی یہودی مسئلہ‘‘ ایک اور صدی تک ہمارے ساتھ رہے گا۔ تمام اسٹریٹجک تنازعات کی طرح یہ مسئلہ بھی دیگر تمام مسائل سے جڑا ہوا ہے، جیسے کہ دہشت گردی، بڑے پیمانے پر تباہی پھیلانے والے ہتھیار، ایران، زبردست خانہ جنگی اور اصلاحات... وغیرہ۔ اس قسم کے تنازعات میں درد کش ادویات زیادہ تر فائدہ مند نہیں ہیں اور اگر اسے ایک طرف کر کے چھوڑ دیا جائے تو یہ آئے گا اور سب کا پیچھا کر کے بہت زیادہ قیمت وصول کرے گا۔
دوسرا اسٹریٹجک نکتہ یہ ہے کہ اس مسئلے کو حل کرنا اس وقت ممکن ہے جب اسرائیل ایک غیر معمولی ریاست کے طور پر ختم ہو جائے، جس کا اسے تو حق حاصل ہے لیکن دنیا کے دیگر ممالک اور یقیناً خطے کے ممالک بھی اس کے حقدار نہیں ہیں۔ درحقیقت اس خطے کے بہت سے ممالک پہلی اور دوسری عالمی جنگوں کے بعد ایک بین الاقوامی شخصیت کے طور پر ابھرے، ان ممالک کے عوام کی تاریخی گہرائی سے قطع نظر۔ جب عبرانی ریاست خود کو ان تمام قوانین سے مستثنیٰ سمجھنا چھوڑ دے جن کے تابع دنیا کے ممالک ہیں، تو مذاکرات مفید ہوں گے، کیونکہ یہ مفادات کی ترکیب ہوگی جس میں تبادلہ اور بارٹر ممکن ہے۔ یہاں تیسرا اسٹریٹجک نقطہ آتا ہے۔ تل ابیب یونیورسٹی میں پوچھا گیا ایک سوال مجھے موصول ہوا کہ عرب کب اسرائیل سے نفرت کرنا چھوڑیں گے؟ اس کا جواب یہ تھا کہ یہ تب ممکن ہو گا جب خطے کو معلوم ہو کہ اسرائیل کی موجودگی اس کی غیر موجودگی سے بہتر ہو گی۔ اس کی قریب ترین تاریخی مثال سنگاپور کی ریاست کی ہے۔ جو چینی آباد کاروں کے ذریعہ وجود میں آئی جن کے آباؤ اجداد چین سے آئے تھے، انہوں نے ایک ایسی ریاست قائم کی جو ملائیشیا کا حصہ تھی، پھر ایک الگ ملک بن گئی جو ملائیشیا اور انڈونیشیا کے درمیان پھیلے "مالے" سمندر میں واقع ہے۔ لیکن سنگاپور کئی سالوں میں اپنی جدت اور معاشی قوت کی وجہ سے جنوب مشرقی ایشیا میں درحقیقت بہت سے طریقوں سے اچھی جیزوں میں قیادت کرتا رہا ہے۔
کیا اس اسٹریٹجک صورتحال کی کوئی عملی تفصیلات ہیں جو "اسرائیلی مسئلے" کے بارے میں سوچنا ممکن بناتی ہوں؟ جواب ہے: ہاں، بہت سی۔

بدھ - 14 ذی الحجہ 1443ہجری - 13 جولائی 2022ء شمارہ نمبر [15933]