نبیل عمرو
TT

بائیڈن بیت لحم میں

ہمیں دو بڑے اسٹیشنوں کے درمیان واقع دوسرے سٹیشن "بیت لحم" کے دورے کا تجزیہ کرنے کے لیے سرکاری بیانات کا انتظار کرنے کی ضرورت نہیں ہے جو عام طور پر صدر اور دیگر کسی بھی امریکی اہلکار کے دورے کے بعد جاری کیے جاتے ہیں، اس طرح سے یہ دو لائنوں کے درمیان کوما کی طرح نظر آتا ہے۔
بیت لحم کے دورے سے پہلے ایسے پیش رو تھے جنہوں نے اس سے عملی توقعات کی حدود کا تعین  قائم کیا۔ اس کی بنیاد صدر محمود عباس کی طرف سے بیان کردہ فلسطینی شکایات کی منطق کے بارے میں امریکی سمجھ بوجھ ہے، جو فلسطینی اسرائیلی ٹریک کے حوالے سے اعلان کردہ امریکی پالیسی سے ماخوذ ہے۔ تاہم، یہ فہم زبان کی حد تک ہی رہا نہ کہ عملی س طور پر۔ فلسطینیوں کو جو چیز مطمئن کرنے سے زیادہ پریشان کرتی ہے وہ امریکی ترازو کا  مالی و خدماتی سہولیات کی جانب جھکاؤ ہے جبکہ پرانے ترازو کے حساب سے سہولیات سیاست کے متوازی تھیں۔ اگر ہم بائیڈن کے بیت لحم کے دورے سے پہلے کے بیانات کا جائزہ لیں تو ہم دیکھتے ہیں کہ مالی امداد نے اس طرح سے ایک پہلو پر قبضہ کر لیا ہے جو دورہ اور دورہ کرنے والے کے بارے میں فلسطینیوں کے منفی جذبات کو کم نہیں کرتا، چاہے ہزار بار کہا جائے کہ مالی امداد سیاسی ٹریک کی جگہ نہیں لے سکتی۔
 بائیڈن کا دورہ وقت کے اعتبار سے نہایت مختصر ہے، لیکن یہ ہمیں دعوت دیتا ہے کہ اس کا موازنہ برسوں پہلے بل کلنٹن کے غزہ اور بیت لحم کے دورے سے کریں۔ اس دورے کے دوران، غزہ نے ایک بہت بڑا امریکی جھنڈا بنایا جس نے عظیم مہمان کی خوشی میں دس منزلہ عمارت کے اگلے حصے کو ڈھانپ لیا تھا۔ غزہ اور شاید پورے فلسطین کا سب سے بڑا ہال رشاد الشوا سیاسی، سماجی اور یونین سرگرمیوں سے بھرا ہوا تھا جو دنیا کے سب سے بڑے ملک کے صدر کا جشن منانے، فلسطینی قومی چارٹر کے دو پیراگراف کی منسوخی کو بڑے جوش و خروش کے ساتھ سراہنے اور اس وقت اسرائیل کے ساتھ تازہ امن کے لیے فلسطینیوں کے ارادے کے اخلاص کا اظہار کرنے کے لیے جمع ہوئے تھے۔ ان سب اہتماموں کے باوجود غزہ چند سالوں بعد ’’حماس‘‘ کے قبضے میں چلا گیا اور وعدہ شدہ امن جس کی انہوں نے سرپرستی کی تھی وہ تباہ کن جنگوں کے سلسلے میں تبدیل ہو گیا جس کی مثال فلسطین -  اسرائیل تنازع کی تاریخ میں نہیں ملتی۔
یہ بہت بڑا جھنڈا تہہ کر دیا گیا جس طرح کسی امریکی افسر یا فوجی کے جنازے کی رسومات میں اسے تہہ کیا جاتا ہے، یہ صرف "حماس" کے دور میں ہی نہیں بلکہ "فتح" کے عہد حکمرانی میں بھی تہہ کر دیا گیا۔ اس کا لیڈر امریکی صدر کا استقبال کرتا ہے جبکہ مطلوبہ امن بستر مرگ پر ہوتا ہے، ہر کوئی اس کی بے پناہ میراث کے خوف سے اس کی موت کا باضابطہ اعلان کرنے سے ڈرتا ہے، جس کے تباہ کن اثرات اس وقت کہاں تک پہنچیں گے کوئی نہیں جانتا۔
صدر بائیڈن مرتے ہوئے جسم کو مصنوعی سانس کے آلات فراہم کر رہے ہیں جیسا کہ اسرائیلی محافظ کے بغیر یروشلم کے ہسپتال کا دورہ کرنا اور صحت کی سہولیات کے لیے اور شاید اتھارٹی کے بجٹ کے لیے مالی امداد فراہم کرنا، دو ریاستی حل کے بارے میں بیانات جو اب بھی امریکی سیاسی زبان میں اپنائے جاتے ہیں، ہمیشہ بروقت فقرے کے ساتھ آتے ہیں۔
اس بار فلسطین میں پرٹوکول ضروریات کے علاوہ کوئی بھی امریکی جھنڈا نظر نہیں آیا حتیٰ کہ گاڈی کے شیشے کے سائز کا بھی۔ بائیڈن بیت لحم میں چند منٹ گزارنے کے بعد وہاں سے بیت المقدس روانہ ہوں گے، پھر بن گوریون ہوائی اڈے پر اور پھر وہاں سے جدہ جائیں گے، عباس اپنے عظیم مہمان کو درخواستوں کی ایک فہرست، جسے وہ عام طور پر سادہ بیان کرتے ہیں، پیش کرنے کے بعد رام اللہ میں المقاطعہ کی عمارت میں واپس چلے جائیں گے۔ جس طرح عرفات اپنے مطالبات کے بارے میں کہتے تھے کہ"میں چاند نہیں مانگ رہا ہوں... میں اپنے ملک پر قبضے کے ساتھ ساتھ آبادکار خاتمے اور فلسطینی ریاست کے قیام جس کا دارالحکومت القدس الشریف ہو (الشریف ایک کمزور مشرقی اصطلاح ہے) اور پناہ گزینوں کے مسئلے کو بین الاقوامی قانونی قراردادوں کے مطابق حل کرنے کا مطالبہ کر رہا ہوں۔
یہ صرف مطالبات ہیں اور اس میں کوئی شک نہیں کہ پچھلے تمام امریکی صدور انہیں سن چکے ہیں اور آنے والے بھی ضرور سنیں گے، تاہم ملک کے حالیہ مہمان بائیڈن کے لیے ان پر عمل درآمد کے سوا یہ سب کچھ مناسب ہے۔ کوئی بھی شخص فلسطینیوں کے مصائب اور ان کی درخواستوں کی منطق کے ادراک کو نہیں چھپاتا، تاہم، اس تفہیم کے باوجود، وہ انہیں مستقبل قریب میں ناممکن مطالبات کے طور پر دیکھتا ہے۔ فلسطینیوں کا کوئی بھی مطالبہ، چھوٹا یا بڑا، لازمی طور پر مکمل بند اسرائیلی دروازے سے گزرنا چاہیے، سوائے اس تنگ کھڑکی کے جس پر صرف سہولیات کے گزرنے کے لیے لکھا ہوا ہو۔ فلسطینی حکام یہ بات حتمی طور پر نہیں بلکہ براہ راست اور واضح امریکی رپورٹنگ سے اچھی طرح جانتے ہیں۔ تاہم، وہ، خاص طور پر صدر عباس، جو فلسطینیوں کے ساتھ امریکی معاملات کا بھرپور تجربہ رکھتے ہیں، اب بھی ایک ایسی مساوات کے بوجھ تلے دبے ہوئے ہیں جو کہتا ہے کہ آپ بہت کچھ مانگتے ہیں اور ضرورت کی وجہ سے بہت کم قبول کرتے ہیں، اور یہ وہی مجبوری ہے جو اس دورے سے پہلے، اس کے دوران اور اس کے بعدبھی  ایک طویل عرصے تک موجود رہے گی۔

جمعرات - 15 ذی الحجہ 1443 ہجری - 14 جولائی 2022ء شمارہ نمبر [15934]