عبد المنعم سعید
TT

مشرق وسطیٰ میں نیا یورپ

ولی عہد شہزادہ محمد بن سلمان بن عبدالعزیز آل سعود  نے نعرہ لگایا کہ مشرق وسطیٰ جدید دور میں "نیا یورپ" ہوگا۔ یہ نعرہ کئی ایک عرب ممالک میں جاری گہری اصلاحات کے تجربات کے تفصیلی اور درست جائزے کے بعد آیا ہے؛  جس کی تاکید خاص طور پر دبئی اور متحدہ عرب امارات کے بالعموم تجربے نے ترقی اور جدت کی طرف عرب کے سر کو بلند کیا ہے۔ جہاں مصر کے تجربے کو اس کے محل وقوع، آبادی، تاریخی حیثیت اور موجودہ تجربے کے ساتھ سراہا گیا، وہیں دیگر عرب ممالک جیسے کہ اردن، کویت، عمان اور قطر نے مناسب توجہ حاصل کی ہے۔ یہ ایک فطری بات تھی کہ موجودہ سعودی تجربے کو اصلاحات، جدیدیت اور عمومی پیشرفت کے لیے ایک عنوان قرار دیا جائے۔ لیکن اس سب کو مشرق وسطیٰ کے مستقبل کے ساتھ جوڑنا نیا تھا۔ یہ کسی سے ڈھکی چھپی بات نہیں ہے کہ دنیا میں اس خطے کی حالت کسی کے لیے بھی خوشی کا باعث نہیں تھی اور خاص طور پر عرب حصے کی حالت۔ مشرق وسطیٰ اور خاص طور پر عرب دنیا نے "عالمگیریت" جمہوریت" اور "جدیدیت" کے ذریعے پسماندگی کی "استثنائی" حالت کی نمائندگی کی۔ اس کے برعکس یہ خطہ ہمیشہ مذہبی "جنونیت" و "انتہا پسندی"، فکری بندش اور لامتناہی اندرونی کشمکش کی جانب جاتا رہا ہے۔جب کہ اس صدی کی دوسری دہائی کے آغاز میں "عرب بہار" کے واقعات کے بارے میں عالمی سطح پر امید دکھائی دے رہی تھی۔ برسوں کی خانہ جنگیوں کے بعد مایوسی جلد ہی واپس لوٹ آئی اور ایسا لگتا تھا کہ جہادی گروپوں، مبینہ طور پر "اسلامی خلافت" اور مغرب سے دائمی دشمنی، عمومی ترقی کی جانب ایک تبدیلی ہے۔
حیران کن بات یہ تھی کہ ولی عہد نے اپنی مداخلت میں جو کچھ پیش کیا اس پر وہ توجہ نہیں دی گئی جس کی وہ عمل درآمد کی گئی اصلاحی پالیسیوں کے طور پر مستحق تھی۔ اسے اب بھی ایک تاریخی استثنیٰ کے طور پر لیا جا رہا ہے جو تیزی سے تحلیل ہو جائے گا جیسا کہ انیسویں صدی میں "عرب نشاۃ ثانیہ" کے وقوع پذیر ہونے کے بعد سے اکثر ہوا ہے۔ اس کے بعد تبدیلی اور آزادی کی کشمکش جاری رہی اور تیل کے بعد مالی فراوانی کی لیکن جدیدیت، عصری اور ترقی کے تصورات دور ہی رہے۔ اس ضمن میں وسیع نظریہ کی اکثر تردید کی گئی اور اس بات پر زور دیا گیا کہ 2015 سے اور یقیناً اکیسویں صدی کی تیسری دہائی کے آغاز کے ساتھ ہی چند ایک کو چھوڑ کے تمام عرب ممالک، عرب ریاستوں اور معاشرے کی گہری اصلاح کی سمت میں آگے بڑھے ہیں۔ اس اصلاح کے ستونوں میں: پہلا، تاریخی گہرائی، قومی وملی شناخت اور سیاسی وحدت کے ساتھ قومی ریاست پر زور دینا۔ اس سلسلے میں سول ریاست کے راستے پر مذہبی فکر کی تجدید اور اصلاح قومی اتحاد کا بنیادی ستون ہے۔ دوسرا ترقی کے عمل کے جغرافیائی افق میں جامع تبدیلی ہے۔ چنانچہ مصر نے "دریا سے سمندر تک" اور سعودی عرب نے "خلیج سے بحیرہ احمر تک" اس کا آغاز کیا۔ اب ان عام تصورات کو قبول نہیں کیا جا سکتا کہ ہماری زمینیں بنجر اور صحرا ہیں، اور یہ کہ دولت صرف تیل سے ہی حاصل ہو سکتی ہے، لہٰذا ہمارے پاس جو ریت کی فراوانی ہے وہ درحقیقت "سلیکون" ہے، ہمارے پاس جو پہاڑ ہیں وہ معدنیات ہیں، ہمارے سمندر ہمارے لئے پل، نقل و حمل اور مواصلات ہیں اور ہمارے پاس جو کچھ بطور انسان ہے وہ ذہن، خیالات اور تخلیقی صلاحیتیں ہیں۔ تیسرا یہ ہے کہ سیاسی ارادے کا اتحاد، اسکی قوت، عزم اور  اس کے جوان ایسے معجزات کو حاصل کرنے کی صلاحیت رکھتے ہیں جن کا سائنسی مطلب ہے کہ کم وقت میں ترقی کا حصول، کیونکہ معجزے کی حقیقت تب ہوتی ہے کہ جب پلک جھپکنے میں کچھ ہو جائے۔
چوتھا، درحقیقت ولی عہد نے اصلاحی ممالک کے آپس میں تعلقات کو ایک نئی موافقت میں شامل کیا، تاکہ ان میں نفرت انگیز مقابلہ بازی یا حسد نہ ہو، بلکہ اس بات کی یقین دہانی ہو کہ وہ جو کچھ مل کر کر رہے ہیں وہ درحقیقت "نئی علاقائیت" ہے جس سے یہ خطہ یورپ جیسا بن جائے گا، جب وہ قرون وسطیٰ سے نکل کر دوسری صدی عیسوی کے وسط سے شروع ہونے والے جدید دور کی جانب بڑھے گا تاکہ یہ اس مقام تک پہنچے جہاں آج دنیا کھڑی ہے۔ یہاں  "نئی علاقائیت" پر بات ہوئی جو اندرونی اصلاحات سے شروع ہو کر علاقائی تعاون اور علاقائی تنازعات کے خاتمے تک جاتی ہے۔ اب یہ ممکن ہے کہ یہ معاملہ نئی نتیجہ خیز سمتوں میں آگے بڑھے، جس کا آغاز مصر اور سعودی عرب کے درمیان سمندری سرحدی منصوبہ بندی کے معاہدے میں ہوا،  جس نے مصر کے شمال مشرق میں سینا اور مملکت سعودی عرب کے شمال مغرب میں العلا کے علاقوں کے درمیان انضمام کا دروازہ کھولا۔ دونوں شمالی بحیرہ احمر میں ایک ترقیاتی اور سیاسی علاقہ تشکیل دیتے ہیں جو گہری "جیو پولیٹیکل اور جیوسٹریٹیجک" حقیقتیں تخلیق کرتے ہیں جو بہت زیادہ علاقائی استحکام اور اقتصادی ترقی کی راہ ہموار کرتے ہیں۔ لیکن جدہ میں امریکی صدر کے ساتھ ملاقات پر نو عرب ممالک جمع ہوئے انہیں کیا قبول ہے اور کیا ناقابل قبول ہے اس بارے میں تمام عرب رہنماؤں کی تقریباً ایک جیسی گفتگو خطے کے اندر اور باہر سے نمٹنے کے لیے ایک نیا اصول طے کرتی ہے۔
یاددہانی کے طور پر، یورپی علاقائی نظام کا آغاز 1648 میں "ویسٹ فیلیا معاہدہ " کے فریم ورک سے ہوا، جس میں یورپی ممالک کے اندرونی معاملات میں عدم مداخلت کی شرط رکھی گئی۔ اس کے بغیر پروٹسٹنٹ ازم اور کیتھولک ازم کے خلاف سو ساک تک اور پھر تیس سال تک جنگیں رہیں جن کا ختم ہونا ناممکن تھا۔ ریاست ہائے متحدہ امریکہ کے سربراہ کے ساتھ نو ممالک کی ملاقات ان کے لیے ایک دوسرے کے ساتھ ملنے کو ممکن بناتی ہے اور یہ سب ایک نیا علاقائی ڈھانچہ قائم کرنے کے لیے اصلاحات، ترقی اور تجدید کے ممالک ہیں۔ اگر پہلی اور دوسری عالمی جنگ عظیم، جن دونوں کی بھاری قیمت ادا کرنا پڑی، نے یورپی تجربے کو اس مقام تک پہنچایا ہے جہاں یہ اب ہے، تو عربوں کی آزادی کی جنگیں، عرب اسرائیل جنگیں، عرب خانہ جنگیاں اور عرب علاقائی تنازعات سبھی کی بھاری قیمت تھی، سبھی خطےمیں ایک نئے نقطہ آغاز کی طرف دھکیل رہے تھے۔ سیاسی طور پر آغاز، آزادی کے بعد سے ریاستوں کی موجودہ سرحدوں کو تسلیم کرنے سے ہوتا ہے، جس کی بنیاد پر ان ریاستوں کو اقوام متحدہ میں تسلیم کیا گیا تھا اور دوسرے ممالک کے اندرونی معاملات میں مداخلت نہیں کی جائے گی جیسا کہ مکمل طور پر تسلیم کیا جاتا ہے کہ "اہل مکہ اپنے لوگوں کے بارے میں بہتر جانتے ہیں۔" اقتصادی طور پر دروازہ بہت سے لوگوں کے لیے کھلا ہے، اگر "مشرقی بحیرہ روم فورم" یورپی کیس کی طرح ایک مثال پیش کرتا ہے، جس کا آغاز لوہے اور سٹیل پر منحصر تھا پھر یہاں "گیس" انضمام کا پہلا نقطہ بن گیا۔ "شمالی بحیرہ احمر فورم" اور "نیو شام" فورم کا قیام ان مفید راستوں میں سے ہیں جو درست سمت میں آگے بڑھ رہے ہیں۔

بدھ - 6 محرم 1444ہجری - 03 اگست 2022ء شمارہ نمبر [15954]