خدا لعنت کرے اس "نظریہ" پر جو اپنی گھٹیا پن، سادگی اور مبالغہ آرائی کے ساتھ لوگوں اور قوموں کے آپس کے تعلقات کو ایک ساتھ تباہ کر تے ہیں یہاں تک کہ دنیا کو الٹ پلٹ کر دے۔ کہانی کی شروعات برسوں پہلے کی ہے جب میں امریکہ میں تھا اور بچوں نے مشہور ایپل "آئی فون" کا نیا ماڈل مانگا۔ مجھے بوسٹن شہر کے وسط میں واقع ایپل مارکیٹ دیکھنے کا شوق تھا جس کے صاف شفاف شیشے، اس کا سفید رنگ اور اس میں کام کرنے والے نوجوان نئے دور سے آنے والی زندگی کی جانب بڑھا رہے تھے۔ اس طرح جب میں خریدنے گیا تو جواب ملا کہ اس قسم کر پروڈکشن کی دستیاب مقدار ختم ہو چکی ہے۔ یہ پہلا موقع تھا کہ ریاست ہائے متحدہ امریکہ میں کہا گیا کہ جو مجھے چاہیئے وہ نہیں ہے؛ لیکن بقیہ پہلی بار یہ تھا کہ مجھے مطلوبہ چیز کے حصول کے لیے صبح سویرے آنا تھا۔ اس طرح میں اگلی صبح چھ بجے گیا تو مجھے تقریبا ایک کلومیٹر تک لمبی قطار ملی اور امکان تھا کہ جب تک میں وہاں تک پہنچونگا میرا مطلوبہ موبائل ختم ہو چکا ہوگا، جب میں نے پوچھا تو ایک حیرت انگیز کہانی ملی۔
جدید ذہانت سے بھرپور ایپل کی مصنوعات چین میں تیار ہو رہی تھیں پھر بھی وہ ’’میڈ اِن امریکہ‘‘ تھیں۔ لیکن قطاریں ان مصنوعات کے آنے کا انتظار کر رہی تھیں جو اس عظیم کمپنی کے تمام آؤٹ لیٹس کے لیے مختص کوٹے کے مطابق تھی، (اب مارکیٹ میں اس کی قیمت 2.5 ٹریلین ڈالر ہے)۔
اب موضوع مشہور فونز نہیں رہے کہ جو بچے مانگتے ہیں، بلکہ بین الاقوامی عمومی تعلقات کا نیا ڈھانچہ اور امریکی - چینی تعلقات بن چکے ہیں۔ یہ مسئلہ نئے ڈھانچوں اور معاہدوں کے مطالعہ اور تفہیم کا موضوع بن چکا ہے جو تحقیق و مطالعہ کے لیے ہم پر مسلط ہیں، جبکہ حقیقت یہ ہے کہ واشنگٹن اور بیجنگ دشمن بھائیوں کے رشتے میں ایک ساتھ رہتے ہیں۔ یہ آپس میں بھائی ہیں کیونکہ دونوں ممالک کے درمیان جو تجارتی تعلقات ہیں ان کی مثال دوسرے ممالک سے نہیں ملتی۔ چین امریکہ کو سالانہ 400 بلین ڈالر کی برآمدات کرتا ہے اور مؤخر الذکر 127 بلین ڈالر کی اشیا اور اجناس اسے برآمد کرتا ہے۔ مزید اہم بات یہ ہے کہ چین امریکہ کا پچھلا صنعتی باغ بن گیا ہے۔ یہ وہی ہے جسے حال ہی میں "سپلائی چینز" کا نام دیا گیا، جس کے بغیر نازک اور غیر نازک امریکی صنعت و ٹیکنالوجی الجھن کا شکار ہو جاتی ہے۔ اس کے علاوہ چین کے حق میں دونوں ممالک کے درمیان تجارتی توازن میں خسارے نے ڈالر کے ذخائر کو جنم دیا جو چین کو اپنی عالمی قدر کے تعین میں شراکت دار بناتا ہے۔ دونوں ملکوں کے روابط کا تذکرہ کرنے کی تھکن شاید مضمون کی پوری جگہ لے لے، لیکن حیرت کی بات یہ ہے کہ دونوں ملکوں کے تعلقات میں جو دشمنی پائی جاتی ہے اس کو دور کرنے کے لیے یہ کافی نہیں۔ تاریخی اعتبار سے چین دوسری جنگ عظیم کے دوران امریکہ کا اتحادی تھا, لیکن 1949 میں "ماؤزے تنگ" کی قیادت میں کمیونسٹ فتح کے بعد، یہ امریکہ کا ایک سٹریٹجک اور نظریاتی مخالف بننا شروع ہوگیا جو گزشتہ صدی کی پچاس کی دہائی کے دوران کوریا کی جنگ میں کھل کر سامنے آگیا تو پھر واشنگٹن میں پالیسی سازوں کی طرف سے اسے ایک دشمن ملک کے طور پر دیکھا جانے لگا۔ اس کے باوجود پچھلی صدی کی ستر کی دہائی کے اوائل میں، واشنگٹن نے بیجنگ کے ساتھ تعلقات کی قربت کو ایک عارضی ضرورت کے طور پر دیکھا کیونکہ یہ سوویت یونین کے لیے ایک کاؤنٹر ویٹ تھا، اسی وجہ سے صدر رچرڈ نکسن نے دونوں ممالک کے مابین تعلقات کو معمول پر لانے کے لیے 1972 میں اس کا دورہ کیا۔ 1978 میں ڈینگ شیاؤپنگ، جنہوں نے چینی کمیونسٹ پارٹی کی قیادت سنبھالی اور پچھلی صدی کی نوے کی دہائی کے اوائل تک مارکیٹ اکانومی کے نظریات کو اپنایا، کی قیادت میں اقتصادی اصلاحات کے بعد بیجنگ کو سیاست دانوں، تاجروں اور یہاں تک کہ امریکی عوام نے بھی اسے ایک تجارتی پارٹنر کے طور پر دیکھا جس کی مصنوعات امریکی منڈیوں پر حاوی دکھائی دیتی تھیں۔ یہ سرد جنگ کے خاتمے، بل کلنٹن کی قیادت اور "عالمگیریت" کی طرف ان کے رجحان کے ساتھ ایک حقیقت بن گیا، اور چین عالمی اقتصادی منڈی میں اپنے حصہ میں اضافے کے ساتھ اس رجحان کا ایک اہم جزو بن گیا۔ 2001 میں ورلڈ ٹریڈ آرگنائزیشن میں چین کے داخلے کے ساتھ، چین-امریکی شراکت داری عالمی سطح پر گہری ہو گئی اور دس سال بعد چین امریکہ کے بعد دنیا کی دوسری بڑی معیشت بن گیا۔
تاہم، بین الاقوامی تعلقات کے مطالعے میں یہ بات عام ہے کہ باہمی تعلقات کا انحصار امن اور تعاون کا باعث بنتا ہے، لیکن یہ امریکی چینی تعلقات کے حوالے سے درست نظر نہیں آتی۔ اس سے پہلے امریکی شکوک و شبہات مضبوط تھے کہ ایک ایسا ملک جہاں کمیونسٹ پارٹی کی حکمرانی ہو وہ دوسری قوموں کے ساتھ امن کا پیغامبر ہو سکتا ہے۔ بیجنگ میں یہ بھی بڑے پیمانے پر قیاس آرائیاں تھیں کہ دنیا میں کوئی تب تک سپر پاور نہیں بن سکتا جب تک کہ وہ دیگر ممالک پر تسلط حاصل کرنے اور ان کے اندرونی معاملات میں مداخلت کی کوشش نہ کرے۔ بہرصورت شکوک و شبہات کے باوجود دونوں ممالک کے درمیان تعلقات بڑھتے اور گہرے ہوتے چلے گئے۔ لیکن جلد ہی اس نے چین کے ساتھ مقابلہ بازی کا امریکی خوف پیدا کر دیا، چنانچہ صدر ڈونلڈ ٹرمپ نے چین میں سرمایہ کاری کرنے والی امریکی کمپنیوں کو سزا دینے کی کوشش کی، دوسری جانب انہوں نے چینی کمپنیوں اور مصنوعات پر ٹیکس اور کسٹم ڈیوٹی لگانا شروع کر دی۔ تیسری جانب، امریکہ دنیا میں پیرس موسمیاتی معاہدے سے دستبردار ہو گیا، جس میں دونوں فریق دنیا کو بچانے کے معاہدے میں شراکت دار تھے، کیونکہ وہ گلوبل وارمنگ کے زیادہ حصے کے ذمہ دار تھے۔ چوتھی جانب، انہوں نے وبائی مرض کی ذمہ داری چین پر ڈال کر اسے "کوویڈ 19" چینی وائرس کا نام دے کر مخالفانہ موقف اختیار کیا۔ صدر بائیڈن نے چین کے ساتھ دشمنی کو ایک اور نظریاتی سمت میں لیا، جو دنیا کو "جمہوری" اور "آمرانہ" ممالک میں تقسیم کرتی ہے جن کے درمیان چین واقع ہے۔ یہیں پر امریکی ایوان نمائندگان کی اسپیکر محترمہ نینسی پیلوسی کی کہانی ہے۔
اصل میں جو کچھ ہوا وہ چین کی طرف امریکی "شیزوفرینیا" کا معاملہ ہے، جبکہ وائٹ ہاؤس کی قیادت نے بیجنگ کے ساتھ تعلقات کو ضروری سمجھا اور اس ضرورت میں اضافہ یوکرینی جنگ کے آغاز سے ہوا اور پھر صدارتی سطح ہر رابطے کھلے اور متواتر رہے۔ دوسری طرف اس نے چینی سیاسی صورتحال پر اپنی معمول کی منفی درجہ بندی کو برقرار رکھا۔ اس مخمصے کو حل کرنے کے لیے دونوں فریقوں کے درمیان بات چیت کا عمومی موضوع ہے "دونوں ممالک کے درمیان مقابلہ بازی کو منظم کرنے کی کوششیں اور یوکرین کے خلاف روس کی جنگ کے علاقائی (یورپ) اور عالمی سلامتی پر اثرات پر تبادلہ خیال۔" اسی بات چیت کے دوران امریکی موقف "شنگھائی اعلامیہ" کی طرف لوٹ آیا، جس نے 50 سال قبل امریکی چینی تعلقات کی بنیاد رکھی تھی۔ صدر بائیڈن نے زور دیا ہے کہ تعلقات اب ایک فیصلہ کن لمحے کو پہنچ رہے ہیں جو اکیسویں صدی میں دنیا کو تشکیل دے گا۔ اس بنا پر امریکہ چین کے ساتھ "نئی سرد جنگ" نہیں چاہتا اور نہ ہی اس میں حکومت کی تبدیلی کا خواہاں ہے۔ یورپ اور ایشیا میں اپنے اتحاد کو بحال کرنا اس کا مقصد نہیں ہے، ریاست ہائے متحدہ امریکہ "تائیوان کی آزادی" کی حمایت نہیں کرتا اور نہ ہی واشنگٹن کا چین کے ساتھ کوئی تنازعہ تلاش کرنے کا ارادہ ہے۔
بدھ- 12 محرم 1444ہجری - 10 اگست 2022ء شمارہ نمبر [15961]