عبد المنعم سعید
TT

"ابراہیم المھنا" اور یوکرین جنگ

کالم کا عنوان کسی قدر گمراہ کن معلوم ہوتا ہے، لیکن اگر صبر کیا جائے تو یہ یوکرائن کی جاری جنگ کی ایک اہم ترین جہت کو سمجھنے کی کنجی دے سکتا ہے، جس کا تعلق عمومی طور پر تیل، گیس اور توانائی سے ہے۔ ڈاکٹر ابراہیم المھنا کی کتاب "تیل کے قائدین: مملکت سعودی عرب اور اوپیک کی عالمی توانائی پالیسی کی چار دہائیوں پر ایک اندرونی نظر" 2022 میں (ریاست ہائے متحدہ امریکہ کی کولمبیا یونیورسٹی پریس سے) شائع ہوئی ہے۔ اگرچہ یہ کتاب رواں سال کے دوران ہی شائع ہوئی ہے مگر اس میں یورپ میں جنگ کی حالیہ پیش رفت کو نہیں لیا جا سکا، لیکن یہ کسی بھی پچھلے بحران کے مقابلے میں عالمی توانائی کے حالیہ بحران میں جو کچھ ہو رہا ہے اسے سمجھنے  کے لیے تمام کُنجیاں فراہم کرتی ہے۔ حقیقت یہ ہے کہ تیل ایک ایسی عالمی شے ہے کہ جس کی اہمیت کے بارے میں یہی کافی ہے کہ اس کے لیے ممالک اور حکومتیں مشغول ہیں اور تیل کا حالیہ بحران تاریخ میں اپنی نوعیت کا پہلا بحران نہیں ہے۔ صرف اپنی نسل میں ہم نے عالمی بحران کا اس وقت مشاہدہ کیا جب 1973 میں عربوں نے تیل کو بطور ہتھیار استعمال کیا۔ پھر دوسرا بحران جو ایرانی انقلاب اور عراق - ایران جنگ کے نتیجے میں پیدا ہوا۔ المھنا کے مطابق ہر دہائی میں ایک بڑا عالمی بحران پیدا ہوتا ہے، چاہے اس سے قیمتوں میں اضافہ ہو یا یہ کرشنگ کا باعث بنے۔ اس کتاب کی اشاعت کے بعد بین الاقوامی سیاست سے متعلق سمجھنے کی جو صلاحیت پیدا ہوئی ہے پہلے وہ عظیم کتابوں کے ذریعے پیدا ہوتی تھی۔
ہمارا موضوع سعودی انرجی پالیسی اور "اوپیک" کے بارے میں ہے، ہم نے کچھ عرصہ قبل دیکھا کہ  جدہ کانفرنس برائے سلامتی وترقی کے دوران دنیا اپنی سانسیں روک کر کھڑی تھی۔ جس میں امریکی صدر جو بائیڈن کی پہلی ملاقات سعودی فرمانروا اور ان کے ولی عہد سے ہوئی اور دوسری مرتبہ نو عرب رہنماؤں کے ساتھ۔  کانفرنس کے دوران اور اس کےبعد یہ سوالات تھے کہ: اس کے بعد سعودی تیل کی پیداوار کیسے ہوگی؟ کیا قیمتیں مستحکم یا کم ہو سکیں گی اور دنیا کو خوفناک مہنگائی سے نجات مل سکے گی؟  یہ سوالات اب بھی موجود ہیں، لیکن یہ کتاب ہمیں بہت زیادہ امید دلاتی ہے کیونکہ یہ تصدیق کرتی ہے کہ مملکت سعودیہ  نہ صرف اپنے مفادات سے پوری طرح واقف  ہے،بلکہ یہ پروڈیوسروں اور صارفین کے مفادات سے بھی بخوبی آگاہ ہے۔
اس کتاب میں خاص بات یہ ہے کہ یہ ایک مشیر کی بصیرت فراہم کرتی ہے جس نےسعودی تیل کے  وزراء کے ساتھ کام کیا ہے جو عام طور پر دنیا میں اپنے ساتھیوں میں سب سے زیادہ مشہور ہیں۔  میں ڈاکٹر ابراہیم المھنا کو 1987 سے جانتا ہوں  جب میں واشنگٹن میں بروکنگز انسٹی ٹیوٹ میں وزٹنگ فیلو تھا  اور وہ اس قوت بین الاقوامی اقتصادی پالیسیوں پر پی ایچ ڈی کا مقالہ مکمل کر رہے تھے؛ تیل نام کی کوئی ایسی چیز نہیں تھی کہ جس پر عالمی نظام میں موجودہ پیش رفت کا اطلاق ہوتا۔ اس کے بعد سے، وہ اس طرح کے بہت سے معاملات میں میری دانشمندی کا ذریعہ بن گئے ، خواہ وہ اداروں کے اجلاس ہوں کہ جن میں ہم شرکت کرتے، یا ریاض میں ہماری ملاقاتیں ہوں، یا  پھر جب وہ "اوپیک "کے اجلاسوں میں شرکت کے لیے قاہرہ آیا کرتے تھے،   ہم نے عرب تیل کے ماہر ولید خدوری اور مفکر اور مصنف جمیل مطر کے ساتھ بھی مشترکہ ملاقات کی۔ نوے کی دہائی کے دوران بات چیت بھرپور تھی  اور یہ ایسا وقت تھا کہ جب عالمی نظام "گلوبلائزیشن" کی بڑی چھتری کے نیچے امریکہ کی قیادت میں تبدیل ہو رہا تھا۔ اس قسم کی بڑی تبدیلی میں جو اس کی ساخت سے واضح ہے کہ اس کا تعلق نظام، اس کے ڈھانچے اور اس کے اداروں سے ہے، ایسے میں کہ جب افراد کی سطح پر قائم تجزیہ کو زیادہ توجہ دی جائے دوست کی کتاب اپنی نوعیت میں منفرد نظر آتی ہے   ۔ مختصر یہ کہ کتاب اور اس کے مصنف مستقل آنکھ کے ذریعے حرکت اور تبدیلی کے نمونوں کا مشاہدہ کرتے ہیں اورپھر اس کا تجزیہ فرد اور قیادت کی سطح پر کرتے ہیں۔طلب و رسد کے تحفظات باقی ہیں لیکن سعودی قیادت کی طرف سے آنے والی "سیاست" کی اہمیت سپلائی کے ایک بڑے حصے، اور طلب میں بڑی دلچسپی کی بنیاد پر تجربہ کار وزیروں اور مشیروں کے ذریعے تھی جو بیک وقت ملک اور دنیا کے اعلیٰ مفادات کے بارے میں آگاہ تھے اور اسکے امکانات  کا  علم رکھتے تھے۔
کتاب گیارہ ابواب ، مقدمہ، افتتاح اور اختتام (304 صفحات) پر مشتمل ہے جس میں سعودی تیل کے وزراء اور بااثر ممالک کے رہنماؤں کی پیروی کی گئی ہے۔ اس میں تین اہم چیزوں کی نشاندہی کی گئی ہے جن سے قاری کو آگاہ ہونا چاہیے، چاہے وہ موجودہ عالمی بحران کو دیکھتے  ہوئے اس کا مطالعہ کرے یا مستقبل میں آنے والے بحرانوں کو دیکھے، دونوں ہی صورتوں میں تیل بحران کا مرکز ہے جسے دباؤ کے لیے استعمال کیا جاتا ہے، چاہے یہ روک تھام کے ذریعے ہو یا دستیابی  اور ان کی درمیانی صورت  کے ذریعے ۔
پہلی بات یہ کہ (رابرٹ میکنلے کے) مقدمہ کی پہلی سطروں میں آیا  ہے اوراس میں اشارہ کیا گیا ہے کہ انسانی تاریخ کے ساڑھے پانچ ہزار سال کے دوران انسان گھوڑے کو قابو کرنے والی اپنی دوڑنے کی صلاحیت سے زیادہ تیزی سے آگے بڑھنے کی خواہش رکھتا ہے۔ آج بھی رفتار کو گھوڑوں کی تعداد سے ماپا جاتا ہے جو گاڑی، انجن یا ہوائی جہازمیں پہلے گھوڑے کی جگہ لے سکتے ہیں۔ تیل کی دریافت اور اسے انسانی استعمال کے قابل بنانا انسانیت کے لیے ایک عظیم پیش رفت تھی جس نے بعد میں دنیا کی ہرچیز کو بدل دیا۔
دوسری بات  یہ کہ مصنف کی طرف سے لکھے گئے اداریے میں ایک سعودی شخص کی عکاسی می گئی ہے جو 1953 میں وسطی سعودی عرب کے گاؤں "الداخلیہ- السدیر" میں پیدا ہوا جس میں بجلی نہیں تھی، جب "مٹی کا تیل" آیا تو یہ ایک واضح فتح تھی۔ وہ کہتے ہیں کہ "تب دسترخوان پر کھانا بھی کافی نہیں ہوتا تھا، درحقیقت اس وقت دسترخوان ہی نہیں تھا... کھانا  اس وقت کھجور، آٹے اور شاذو نادر گوشت پر  مشتمل ہوتا تھا۔" گاؤں اور دارالحکومت ریاض کے درمیان اور پھر سعودی عرب میں ابتدائی تعلیم اور واشنگٹن سے ڈاکٹریٹ کے درمیان، مملکت کے ابتدائی ایام سے لے کر اب کی حقیقت تک کے سفر کی عکاسی کرتا ہے، جس میں تیل  اس کی تشکیل میں ایک اہم عنصر تھا۔ تیل اب نہ صرف یوکرائنی جنگ کی دنیا سے نمٹ رہا ہے، بلکہ اس سے بھی بڑھ کر پوری مملکت کو دولت، کام اور پیداوار کا کثیر ذریعہ بنا  کر تبدیل کررہا ہے۔
تیسرا معاملہ یہ ہے کہ تیل کے وزراء کے درمیان ذمہ دار فرد کا کردار فیصلہ سازی کے عمل کی ایک اہم جہت ہے, کیونکہ وہ اپنے مشیروں کے ذریعے بہت ساری جہتوں کو جذب کرنے کے عمل کو تلاش کرنے کے بعد سرانجام دیتا ہے، پھر وہ سعودی قیادت اور دنیا کے رہنماؤں کے ساتھ اس پر رابطہ قائم کرتا ہے اور آخر میں یہ مشکل اور دانشمندانہ فیصلے کا مرکز  بن جاتا ہے۔
ڈاکٹر ابراہیم المھنا عرب رہنماؤں کی فیصلہ سازی اور پالیسی سازی کے عمل پر ایک بے مثال کتاب لکھنے کے لیے تاریخ کی تحریک میں ایک اعلی درجے کی نشست پر بیٹھے تھے۔ لندن کے "فنانشل ٹائمز" اخبار نے ان کے بارے میں لکھا ہے کہ وہ تیل کی منڈی کے علم اور اس میں تبدیلیوں پر روشنی ڈالنے والے پہلے شخص ہیں۔ دنیا کے لیڈروں کے ساتھ جو تبدیلیاں ہوئیں،  جیسا کہ وینزویلا کے ہیوگوشاویز یا روس کے ولادیمیرپوٹن کے ساتھ، اسی طرح تیل کی منڈی کو ریگولیٹ کرنے کے ڈھانچے میں "اوپیک" تنظیم کے علاوہ دیگر پیداواری ممالک، جن میں روس سب سے اہم ہے، ان کے  ذریعے اہم اقدامات اور ان کے اہم اثرات اس کتاب میں پائیں گے۔ عربی نقطہ نظر سے یہ کتاب فیصلہ سازی کے عمل، فرد کے کردار، اس کے رجحانات، تصورات اور اندازوں کی روایت قائم کرتی ہے، تاکہ تاریخ لکھنے میں مزید انسانی، کشادہ اور گہرے زاویہ نظر حاصل ہو سکیں۔ یہ کتاب عربی لائبریری میں ایک اہم اضافہ ہو گی، عرب فیصلہ سازی میں ٹیکنو کریٹک گروپ کے کردار کو دیکھتے ہوئے؛ جب عربی میں ترجمہ کیا جائے تو یہ اضافہ زیادہ وسیع اور مفید ہوگا۔

بدھ - محرم 19 1444ہجری - 17 اگست 2022 عیسوی شمارہ نمبر [15968]