ایاد ابو شقرا
TT

لبنان... فضول انتظار کی دلدل میں

چند ہفتوں کے آرام کے بعد لبنانیوں نے اچانک ایک "پیش رفت" کے آثار سنے، جس سے صدر میشال عون اور نامزد وزیر اعظم نجیب میقاتی کے درمیان جمود ختم ہو سکتا ہے۔ اسی طرح یہ صدارتی محل میں عون کے اقتدار کے خاتمے کے دہانے پر حکومتی تعطل کو ختم کرتا ہے۔
یہاں اور وہاں ایک "پاس ورڈ" کے بارے میں بات گردش کر رہی ہے جو کہ  لبنان کی اندرونی صورت حال کو اہتمام دینے والی یورپی جہت سے آیا ہے کیونکہ رکاوٹوں پر قابو پانے اور ایک مستند حکومت کے اجراء کی ضرورت ہے - نگران حکومت نہیں - جو اس موسم خزاں میں کسی بھی وجہ سے نئے صدر کا انتخاب نی ہونے کی صورت میں آئینی اور مرحلہ وار اقتدار سنبھالنے کی حقدار ہو۔
یہ بات قابل ذکر ہے کہ یہ پیش رفت، جس کا شور عون اور میقاتی کے درمیان ایک گرمجوشی کے بعد جلد ہی تھم گیا، واشنگٹن اور تہران کے ایران فائل سے متعلق ایک معاہدے تک پہنچنے کے بارے میں بڑھتی ہوئی باتوں کے ساتھ موافق ہے جس میں فراخدلی سے امریکی مراعات اور انعامات شامل ہیں۔ جس سے ایک سمجھدار شخص تہران کے تباہ کن منصوبے اور عرب خطے پر قبضے میں بڑے فروغ کی توقع رکھ سکتا ہے۔
میں 2003 سے گزرے ہوئے وقت پر بات ہرگز نہیں کروں گا، منطق یہ کہتی ہے کہ جو رقم تہران میں حکومت کے خزانے میں جائے گی، چاہے وہ فنڈز سے ہو یا اقتصادی بائیکاٹ اور پابندیوں کے نقصانات سے، لاکھوں غریب اور معصوم ایرانی شہریوں کی ضروریات پوری کرنے کے لیے نہیں جائے گی۔
بلکہ آپ دیکھیں گے کہ یہ "پاسداران انقلاب" کے اسلحہ خانوں، سازشی باورچی خانے، قتل و غارت اور فرقہ وارانہ فسادات کو ہوا دینے کے پلیٹ فارمز کو دی جائے گی۔
یہ اربوں ڈالر ایرانی عوام اور ان کی فلاح و بہبود پر خرچ کیے جا سکتے تھے۔۔ بجائے اس کے کہ تہران اسے عراق، شام، لبنان اور یمن میں قبضے کے لیے جنگوں، خلیجی ریاستوں اور بقیہ عرب ممالک۔۔۔ الجزائر اور مراکش تک میں بغاوت کی سازشوں کی مالی امداد پر خرچ کرتا۔ ایران جیسے تاریخی، تہذیب یافتہ، ثقافتی رہن سہن، معاشی صلاحیت اور عظیم قدرتی دولت کے حامل ملک کے لیے یہ بہت ممکن تھا کہ وہ آج دنیا کے ممالک میں ایک سرکردہ مقام پر فائز ہوتا... تاہم حکومت کی ترجیحات اس کے ملاؤں اور ملیشیا کے ساتھ بالکل مختلف ہیں۔
ترقی اور پیشرفت کے بجائے، پہلا ہدف عسکریت پسند اور توسیع پسند تھیوکریسی کو مضبوط بنانا تھا، ہے اور ہمیشہ رہے گا... اس کا مقصد اندر کو مسخر کرنا اور باہر کو ذلیل کرنا ہے۔ کیا حکومت کے اتحادیوں میں سے کسی ایک نے بھی کسی دن یہ نہیں کہا کہ ایران کے لیے بغداد، بیروت اور دمشق کی گلیوں میں اپنے دشمنوں سے لڑنا اس سے بہتر ہے کہ وہ تہران، اصفہان اور شیراز کی گلیوں میں لڑے؟!
یہ تہران میں سوچ کا مروجہ نمونہ اور حکومت کے ارادے ہیں جو اب بالکل بھی مجسم نہیں ہیں... بلکہ یہ عملی طور پر روزانہ اپنی فرقہ وارانہ ملیشیاؤں کے زیر انتظام ہر جگہ پر "ریاست" کے اداروں کے منظم اور مرحلہ وار خاتمے اور آبادیاتی تبدیلی کے ساتھ ساتھ شناخت میں ردوبدل، ثقافت کی جعل سازی، قومی دولت کی لوٹ مار اور اپنے ساتھیوں اور پیروکاروں کی کٹھ پتلیوں کی "سربراہی" کی ترجمانی کرتا ہے۔
گزشتہ روز میں نے ایک خوبصورت مضمون پڑھا جس میں مصنف کہتا ہے کہ ’’2003 میں عراق پر امریکی حملے نے ایران عراق جنگ کے نتائج کو کالعدم کر دیا‘‘ اور اس  نے تہران کو زہر پینے پر مجبور کر دیا... اور "انقلاب کی برآمد" کے مکمل نفاذ کو ملتوی کر دیا۔ یہ جانا جاتا ہے کہ "انقلاب کو برآمد کرنا" ایک ایسا اظہار ہے جس کا اصل مطلب خطے پر ایران کا حملہ اور قبضہ ہے بالکل اسی طرح جیسے "مزاحمت" کا مطلب ایران کا مفاد ہے جسے اس کی قیادت نے برآمد کیا اور آج کے دن تک اس کی تجارت کر رہا ہے۔
یقیناً یہ بات قابل فہم تھی کہ کس طرح 2003 میں بغداد حکومت کے خاتمے نے تہران اور اس کے پیروکاروں کو عراق کے اندر آزاد کر دیا، جس کے نتیجے میں مستقل ایرانی تسلط نے عارضی امریکی تسلط کی جگہ لے لی۔ اور کس طرح فرقہ وارانہ مسئلے کے ساتھ تباہ کن چھیڑ چھاڑ پال بریمر، قابض امریکی گورنر، سے پوشیدہ نہیں تھی، جس نے خود کو مبارکباد دی - گویا کہ وہ ابراہم لنکن ہو- "جس نے شیعوں کو صدیوں کے سنی تسلط سے آزاد کرایا۔" لیکن سچ یہ ہے کہ اس حملے کے دعوے اور اثرات نے وقت کے ساتھ یہ ثابت کیا کہ وہ شام اور لبنان پر عراق سے کچھ کم نہیں تھے۔
شامی حکومت نے 1990 میں "کویت کو آزاد کرانے کی جنگ" میں "شرکت" کے بعد اپنے آپ کو واشنگٹن کے ساتھ ساتھ لبنان کے اندر بھی بحال کر لیا تھا۔ یہی وجہ ہے کہ بین الاقوامی برادری، خاص طور پر امریکہ اور اسرائیل نے "طائف معاہدے" کے بعد منتخب ہونے والے پہلے لبنانی صدر رینہ معوض کے قتل کے باوجود لبنان کے اندر دوبارہ دمشق کے بڑھتے ہوئے اثر و رسوخ کو نظر انداز کیا... اور بھرپور اشارے ملتے پیں کہ اس قتل کے پیچھے شامی حکومت کا ہاتھ تھاْ۔
1990 کے بعد شام ایک اسٹریٹجک لاجسٹک "زمینی پل" بن گیا جو تہران کے زیر تسلط "عراق" اور دمشق کے زیر تسلط "لبنان" کو جوڑتا ہے۔ لیکن تہران نے 1982 اور 1986 کے درمیان دمشق میں اپنے سفیر علی اکبر محتشمی کی کوششوں سے "حزب اللہ" ملیشیا قائم کی۔ اس طرح بحیرہ روم کی جانب مغرب میں پھیلے ہوئے ایرانی توسیعی نظام نے جڑ پکڑ لی۔ اس توسیع نے خلل ڈالے بغیر سوائے دو واقعات کے نہیں "ہلایا":

  1. لبنان کے سابق وزیر اعظم رفیق حریری کا 2005 میں بیروت میں قتل، ایک ایسا جرم جس میں بعد میں لبنان کے خصوصی ٹریبونل نے "حزب اللہ" کے ارکان کے ملوث ہونے کو ثابت کیا۔ اس جرم کی پاداش میں شامی حکومت لبنان سے اپنی فوجیں نکالنے پر مجبور ہوئی اور پارٹی کے ساتھ اپنے قابل اعتماد خصوصی تعلقات پر اکتفا کیا۔
  2.  2011 میں شام کی عوامی بغاوت، جس نے تہران اور دمشق کے درمیان اسٹریٹجک تعلقات کی نوعیت کی تصدیق کی، کیونکہ "حزب اللہ" ملیشیا نے شام کے اندر زیادہ تر بڑی لڑائیوں اور "فرقہ وارانہ صفائی" کی کارروائیوں میں ابتدائی حصہ لیا، اس سے پہلے کہ ایرانی قیادت اسے عراقی، ایرانی، افغانی اور پاکستانی فرقہ وارانہ ملیشیا فراہم کرتی، جس نے حکومت کو بچانے، بغاوت کو شکست دینے اور شام کے لیے آبادیاتی تبدیلی کے عمل کو تیز کرنے کے مشن کو آگے بڑھایا۔

یہاں یہ کہنا ضروری ہے کہ جو کچھ ہو رہا تھا اس پر نہ تو واشنگٹن، نہ تل ابیب اور حتی کہ نہ ہی پیرس میں فرانسیسی قیادت لاعلم تھی اور نہ ہی حیرت زدہ، بلکہ اس کے برعکس شام اور لبنان کے ساتھ ساتھ غزہ کی پٹی اور یمن، جہاں تک تہران اور اس کے پاسداران انقلاب کا اثر و رسوخ پھیلا ہوا تھا، یہاں پر ہونے والی تمام پیش رفتوں کی ان دارالحکومتوں میں سخت نگرانی کی جاتی تھی۔
تاہم، امریکی صدر ڈونلڈ ٹرمپ کے ردعمل کو چھوڑ کر، جو تہران اور اسد حکومت کی پالیسیوں کے - کم از کم زبانی طور پر ہی - مخالفانہ تھے، تمام مذکور علاقوں میں زمینی طور پر کچھ نہیں بدلا۔ حتی کہ وائٹ ہاؤس میں  ٹرمپ کے چار سالہ عرصہ کے دوران بھی اس کے دائیں بازور کے اسٹریٹجک اتحادی اسرائیل کے ساتھ ساتھ روسی صدر ولادیمیر پوٹن کے ساتھ ان کے خصوصی تعلقات کا اثر دمشق کی حکومت کا تختہ الٹنے کے لیے اس کے انکار پر پڑا... اور تہران سے دشمنی صرف اقتصادی پابندیوں کی چھت تلے رہی۔
آج تہران کے دوستوں نے واشنگٹن میں اپنی پوزیشنیں دوبارہ حاصل کر لی ہیں۔ "لیکود" اسرائیل کی حکمرانی میں واپس آنے کی تیاری کر رہا ہے، پیرس تہران کے ساتھ اپنے تعلقات مضبوط کرنے کے لیے بے تاب ہے اور پوٹن امریکہ میں ہونے والے وسط مدتی انتخابات سے فائدہ اٹھانے کی کوشش کر رہے ہیں۔...
اس طرح کے سودے اور بلیک میلنگ کے ماحول میں لبنان، شام اور عراق کے وجود میں سے جو بچا ہے اسے بچانا اہم فیصلہ ساز دارالحکومتوں میں کوئی اہمیت نہیں رکھتا۔
بنیادی طور پر، ممالک اب درحقیقت موجود نہیں ہیں... تو پھر انہیں حکومتوں کی ضرورت کیوں ہے؟!

اتوار - 23 محرم 1444ہجری- 21 اگست 2022ء شمارہ نمبر [15972]