عبداللہ بن بجاد العتیبی
TT

عراق کی آزادی اور الصدری تحریک

عراق نے 1932 میں برطانوی قبضہ سے آزادی حاصل کی اور بادشاہی عہد سے گزرا، پھر کمیونسٹوں اور "قوم پرست بعثیوں" کے جمہوری دور سے، پھر خالصتاً بعثی دور رہا یہاں تک کہ 2003 کے بعد فرقہ ورانہ دور شروع ہوا جو امریکی استعمار کے زیر سایہ پھیلا اور پروان چڑھا پھر "ایرانی حکومت" تمام ریاستی اداروں اور عراقی معاشرے میں ایک نئے غیر ملکی قابض کے طور پر گھس گئی۔ اگرچہ وقت، حالات اور اعداد و شمار کی تبدیلی کی وجہ سے ایک مختلف فارمولے کی ضرورت تھی۔
امریکہ کی نظروں کے سامنے "ایرانی حکومت" عراقی ریاست اور معاشرے کے اعصاب میں ہر طرح سے گھس رہی تھی اور ایرانی "پاسداران انقلاب" سے وابستہ "پاپولر موبلائزیشن" کے نام سے عراقی "پاسداران انقلاب" تشکیل دے رہی تھی۔ سیاسی پارٹیاں تشکیل دے رہی تھی اور  "حکومت"، "پارلیمنٹ" اور "عدلیہ" میں "ریاستی اداروں" کو کنٹرول کر رہی تھی۔ جبکہ امریکی وجود اسی قدر پیچھے ہٹ رہا تھا جس قدر "ایرانی حکومت" یہاں مضبوط ہو رہی تھی... کسی بھی سازشی وضاحت سے دور یہ وہی کچھ ہے جو دو دہائیوں میں ایک حقیقت کے طور پر فیصلوں اور پالیسیوں کی صورت میں ہوا ہے۔
عراق میں "استحکام سے افراتفری" کی جانب جو کچھ ہو رہا ہے اور "ناکام ریاست" کے رجحان کے مکمل ذمہ دار دو ممالک امریکہ اور ایران ہیں۔ 1980 سے لے کر 1990 اور پھر 2003 سے آج کے دن تک کے فیصلے اور حکمت عملی، عراقی منظر نامے کی گرمی، خانہ جنگی کا خوف و ہراس اور افراتفری و تخریب کاری کے حجم کو بڑھانے میں سہولت فراہم کرتا ہے اور بدقسمتی سے یہ عراق کے اندر مستقبل قریب میں رونما ہوگا۔
"ایرانی قبضہ" کے خلاف عراقی غضب چند سالوں سے نہیں بلکہ کئی سالوں سے بڑھتا جا رہا ہے، جبکہ عراق کے کچھ سیاست دان، جو مکمل طور پر ایرانی حکومت کے وفادار ہیں، "جرات" کی اس حد تک پہنچ چکے ہیں جو بعض پالیسیوں، ملیشیاؤں اور بیانات میں ڈھٹائی کے مترادف ہے۔ گزشتہ ہفتے شدید "بغداد کے واقعات" طویل عوامی غصے کا اظہار تھے۔ ان میں سے کچھ منتخب عراقی زیادہ عرصہ عراق میں نہیں رہے، بلکہ ان میں سے بہت سے لوگ "ایرانی حکومت" کے زیر سایہ اور اس کی حکمرانی، کفالت اور تربیت کے تحت کئی دہائیوں تک اور "صدام کے خلاف مزاحمت" کے نعرے کے تحت رہتے رہے ہیں۔ انہوں نے ایران کے لیے وفاداری اور اطاعت کے تمام فرائض ادا کیے، اور مذہبی، فرقہ وارانہ اور سیاسی برین واشنگ کے طویل عمل سے گزر کر اور جب وہ عراق واپس آئے تو وہ مشفق شہری بن کر نہیں بلکہ عجیب غاصبانہ ذہنیت کے ساتھ واپس آئے، جو عراقیوں کا خون بہانے کی جرأت اور وسیع پیمانے پر لوٹ مار اور بدعنوانی جیسے امور کی انہوں نے قیادت کی اور جس کے ذریعے وہ تیل کی دولت سے مالا مال ریاست کو کمزور کرنے اور اس کی عوام کو غریب اور بے سہارا رکھنے میں کامیاب ہوئے۔ ایرانی سامراج نے کسی بھی ظالم قابض کی طرح عراق کو مسلح ملیشیاؤں، بم دھماکوں، قتل و غارت گری کے فتووں اور محاصروں کے ذریعے کمزور کر کے تباہ کر دیا۔ گزشتہ ہفتے کاظم الحائری کی طرف سے جو کچھ ہوا وہ ایک روشن مثال کے سوا کچھ نہیں جو واقعات کی گرمی سے پیدا ہوا، جبکہ اسے زیادہ پرسکون انداز میں کیا جا سکتا تھا۔ عراق میں ایران کا منصوبہ اسے "ناکام ریاست" میں تبدیل کرنا ہے جیسا کہ اس نے لبنان کے ساتھ کیا۔
عراق میں ایران کے منصوبے نے بدعنوانوں کی حمایت کرکے اور عراقی عوام کی دولت لوٹ کر ایران کی داخلی ضروریات کو پورا کرنے اور اسے سلطنت فارس  کے لیے راہداری بنانے کے لیے اس کی معیشت کو تباہ کردیا اور تہران سے لے کر بغداد، دمشق اور بیروت تک افراتفری کو مستحکم کرنے اور دہشت گردی پھیلانے کا نمونہ بنا کر خطے میں اپنے اثر و رسوخ کو توسیع دی۔
طویل عرصے کے دوران "سنی جز" کو کمزور کیا گیا اور "کرد جز" کو کمزور کرنے کی کوششیں جاری ہیں... عراقی قومی اجزاء میں ایک بہت بڑا خلا پیدا ہو چکا ہے، چنانچہ عراقی عوام کو ایک ایسے رہنما اور تحریک کی اشد ضرورت ہے جو "شیعہ جز" سے تعلق رکھتا ہو، عراق کی تاریخ اور تہذیب کو لے کر چل سکے، اس کے حقیقی ٹکڑوں کو جمع کر کے اس کے اجزا کو متحد کر سکے اور اس کی نئی نسلوں کی مستقبل کی امنگوں کو اپنا سکے۔ برسوں پہلے "الصدر تحریک" اور اس کے رہنما مقتدیٰ الصدر میں یہ ظاہر ہونا شروع ہوا۔
یہ خلا جسے الصدر پُر کرنا چاہتے ہیں وہ "تاریخ کی منطق" اور "عوام کی فطرت" سے مطابقت رکھتا ہے جو الصدر کے قتل سے ہرگز ختم نہیں ہوگا اگر ایران اور اس کے ایجنٹوں نے ان کے ساتھ ایسا کیا۔ بلکہ اسے ایسے نام اور دھارے ملیں گے جو اس کا اظہار کرتے ہوئے اسے متحرک کرتے رہیں گے اور ایران اور اس کے عراقی پیروکاروں کی دہشت گردی، قتل و غارت اور دہشت پھیلانے کی حکمت عملی، عراق کی آزادی میں تاخیر کر سکیں گے اور ایرانی قبضے کو ختم کرنے میں کامیاب تو ہو سکیں گے لیکن اسے منسوخ نہیں کریں گے۔
"ایران عراق پر حکمرانی نہیں کرے گا" اور "ایران باہر باہر" اور اسی طرح کے نعرے عراق میں ایران کی تمام تر مداخلت اور ایرانی منصوبے کی خدمت کرنے والے تمام عراقیوں کو عوام کی طرف سے وسیع تر انداز میں مسترد کئے جانے کا مضبوط اظہار ہیں۔ جو کہ "عربیت" اور "عرب شیعہ ازم" کے الفاظ کا واضح اظہار اور "ایرانی قبضے" کو مسترد کرنا اور عراقی تشخص کے تمام متنوع اور گہرے عناصر سے جڑا رہنا ہے جبکہ خود شناسی" اور "فارسی شیعہ ازم" جیسے منصوبوں سے دور رہنا ہے۔"
آخر میں، عراقی شاعر اور مفکر معروف الرصافی نے "آزادی" کے بارے میں تاثراتی اشعار لکھے، جو اس وقت "المنار" میگزین نے شائع کئے تھے۔ اسے حالیہ وقت کے مطابق کچھ الفاظ کو تبدیل کرتے ہوئے یاد کیا جا سکتا ہے کہ:
ہمارے پاس "بادشاہ" ہے اور اس کی کوئی "رعایا" نہیں ہے ... اور "وطن" ہیں جس کی کوئی "حدود" نہیں
اور "فوج" ہے جن کے کوئی "ہتھیار" نہیں... اور "بادشاہت" ہے جس کے کوئی "پیسہ" نہیں ہیں۔

اتوار - 7 صفر 1444ہجری - 04 ستمبر 2022ء شمارہ نمبر [15986]