سعودی امریکی کشیدگی کوئی ڈھکی چھپی بات نہیں ہے، جیسا کہ اب سعودیہ امریکہ تعلقات میں بہتری کے آثار ہیں اور ایسا لگتا ہے کہ ریاض اور واشنگٹن کے تعلقات اب کچھ مختلف ہیں اور ہلکی آنچ پر پک رہے ہیں۔
یہ سب سعودی نائب وزیر دفاع پرنس خالد بن سلمان کے قابل ذکر اور اہم واشنگٹن سے ٹامپا تک امریکی دورے، وہاں ان کی ملاقاتوں کی نوعیت اور ان کی سطحوں کی بنا پر ہو رہا ہے۔
پرنس خالد کا حال ہی میں واشنگٹن کا یہ دوسرا دورہ ہے، قابل ذکر بات یہ ہے کہ پہلا دورہ مختصر تھا، جبکہ یہ دورہ بالکل مختلف ہے اور یہ واضح ہے کہ قیادتی سطح پر کسی بھی سعودی امریکی ملاقات سے قبل جن باتوں پر اتفاق کیا جا سکتا ہے اس کے لیے ٹھوس بنیاد فراہم کرنے کے لئے یہ وسیع بات چیت کا دورہ ہے۔ خاص طور پر جب سے "سی این این" نے صدر بائیڈن کے سعودی عرب کے آئندہ دورے کا انکشاف کیا ہے ایسا لگتا ہے کہ ہم سعودی امریکی تعلقات کے ایک اہم اور نئے مرحلے کا سامنا کر رہے ہیں جسکا سیاق و سباق واضح اور پیشگی منصوبہ بندی کے مطابق تیار کیا گیا ہے اور پرنس خالد بن سلمان کا دورہ بھی اب یہی بتاتا ہے۔
کالم لکھنے تک، نائب وزیر دفاع پرنس خالد بن سلمان نے امریکی قومی سلامتی کے مشیر جیک سلیوان، وزیر دفاع ٰلائیڈ آسٹن اور انڈر سیکرٹری برائے دفاعى پالیسی ڈاکٹر کولن کال سے ملاقاتیں کیں۔
شہزادہ خالد نے یمن کے لیے امریکہ کے خصوصی ایلچی ٹم لینڈرکنگ کے علاوہ امریکی وزیر خارجہ انتھونی بلنکن اور نائب خاتون وزیر وینڈی شرمین سے بھی ملاقات کی۔ شہزادہ خالد نے تمپا میں امریکی سینٹرل کمانڈ کے ہیڈ کوارٹر کا دورہ کیا، جہاں انہوں نے اس کے کمانڈر فرسٹ لیفٹیننٹ جنرل مائیکل کوریلا سے ملاقات کی۔ یقیناً ہر ملاقات کے سعودی امریکہ تعلقات کے مستقبل اور متوقع پیش رفت؛ جو ہلکی آنچ پر پکائی جا رہی ہے اس پر اثرات مرتب ہونگے، جیسا کہ پرنس خالد کے دورے سے ظاہر ہوتا ہے، جو میڈیا لیکس اورسرکاری بیانات کے شور شرابے کے بغیر مكمل ہوتا ہے۔
یہ فطری ہے کہ کچھ ایسی آوازیں ہیں جو اب واشنگٹن کے ساتھ اسٹریٹجک تعلقات کی اصلاحات میں رکاوٹ ڈالنے کی کوشش کر رہی ہیں، یہ غیر سرکاری تخریب كار آوازیں اپنے خیالات کو کچھ اخباری مضامین یا تحقیقی مراکز کے ذریعے منتقل کرنے کی کوشش کرتی ہیں۔
تاہم یہ بات بھی قابل ذکر ہے کہ رياست ہاۓ متحده امریکہ کی حمایت میں اٹھنے والی آوازیں سعودی امریکى تعلقات کا عقلی طور پر از سر نو جائزہ لینے کی ضرورت پر اٹھی ہیں، یہ آوازیں بااثر ہیں اور ڈیموکریٹس میں بھی اس کا وزن ہے، جو سعودی عرب جیسے قابل اعتماد اتحادی کے ساتھ تعلقات بحال کرنے کے لیے ریپبلکن حمایت کا ذکر نہیں کرتى۔ میں نے اس دورے کے بارے میں واشنگٹن میں ایک باخبر شخص سے پوچھا؛ جو ان حلقوں کے قریب ہے جن سے پرنس خالد بن سلمان نے ملاقات کی یا ان کا دورہ کیا، انہوں نے نام ظاہر نہ کرنے کی شرط پر کہا: ’’میرا خیال ہے کہ یہ ایک نہايت کامیاب دورہ تھا"۔
سعودی امریکی تعلقات کی پیش رفت سے باخبر شخص نے مجھے بتایا کہ سعودی عرب کی سیاست میں ایک اہم معاملہ ہے اور بہت سے لوگ اسے نہیں سمجھتے۔ وہ کہتے ہیں کہ: "وہ چیز جسے میں سعودی ناک کہتا ہوں، یہ نہ تو تکبر ہے اور نہ ہی جذبات ہیں"، انہوں نے مزید کہا کہ: "سعودی ناک سے مراد ہمارے اس یقین کی پختگی ہے کہ ہم صحیح راستے پر گامزن ہیں اور غلطی ہوسكتى ہے اور ایسا ہونے کی صورت میں اسے درست کیا جاۓ گا اور ہم دوسروں کے ایسا کرنے کے منتظر ہیں"۔ میرا ہمیشہ سے یقین ہے کہ ریگستان نے ہمیں یہی سکھایا ہے، چاہے تیل کی قیمتیں کتنی ہی زیادہ ہوں یا کم۔
سعودی عرب ایک عقلی ریاست ہے جو بولی لگانے کو قبول نہیں کرتی اور عجلت نہیں کرتی۔ یوں سیاست ایک مفادات کی زبان ہے۔
یہ سب سعودی نائب وزیر دفاع پرنس خالد بن سلمان کے قابل ذکر اور اہم واشنگٹن سے ٹامپا تک امریکی دورے، وہاں ان کی ملاقاتوں کی نوعیت اور ان کی سطحوں کی بنا پر ہو رہا ہے۔
پرنس خالد کا حال ہی میں واشنگٹن کا یہ دوسرا دورہ ہے، قابل ذکر بات یہ ہے کہ پہلا دورہ مختصر تھا، جبکہ یہ دورہ بالکل مختلف ہے اور یہ واضح ہے کہ قیادتی سطح پر کسی بھی سعودی امریکی ملاقات سے قبل جن باتوں پر اتفاق کیا جا سکتا ہے اس کے لیے ٹھوس بنیاد فراہم کرنے کے لئے یہ وسیع بات چیت کا دورہ ہے۔ خاص طور پر جب سے "سی این این" نے صدر بائیڈن کے سعودی عرب کے آئندہ دورے کا انکشاف کیا ہے ایسا لگتا ہے کہ ہم سعودی امریکی تعلقات کے ایک اہم اور نئے مرحلے کا سامنا کر رہے ہیں جسکا سیاق و سباق واضح اور پیشگی منصوبہ بندی کے مطابق تیار کیا گیا ہے اور پرنس خالد بن سلمان کا دورہ بھی اب یہی بتاتا ہے۔
کالم لکھنے تک، نائب وزیر دفاع پرنس خالد بن سلمان نے امریکی قومی سلامتی کے مشیر جیک سلیوان، وزیر دفاع ٰلائیڈ آسٹن اور انڈر سیکرٹری برائے دفاعى پالیسی ڈاکٹر کولن کال سے ملاقاتیں کیں۔
شہزادہ خالد نے یمن کے لیے امریکہ کے خصوصی ایلچی ٹم لینڈرکنگ کے علاوہ امریکی وزیر خارجہ انتھونی بلنکن اور نائب خاتون وزیر وینڈی شرمین سے بھی ملاقات کی۔ شہزادہ خالد نے تمپا میں امریکی سینٹرل کمانڈ کے ہیڈ کوارٹر کا دورہ کیا، جہاں انہوں نے اس کے کمانڈر فرسٹ لیفٹیننٹ جنرل مائیکل کوریلا سے ملاقات کی۔ یقیناً ہر ملاقات کے سعودی امریکہ تعلقات کے مستقبل اور متوقع پیش رفت؛ جو ہلکی آنچ پر پکائی جا رہی ہے اس پر اثرات مرتب ہونگے، جیسا کہ پرنس خالد کے دورے سے ظاہر ہوتا ہے، جو میڈیا لیکس اورسرکاری بیانات کے شور شرابے کے بغیر مكمل ہوتا ہے۔
یہ فطری ہے کہ کچھ ایسی آوازیں ہیں جو اب واشنگٹن کے ساتھ اسٹریٹجک تعلقات کی اصلاحات میں رکاوٹ ڈالنے کی کوشش کر رہی ہیں، یہ غیر سرکاری تخریب كار آوازیں اپنے خیالات کو کچھ اخباری مضامین یا تحقیقی مراکز کے ذریعے منتقل کرنے کی کوشش کرتی ہیں۔
تاہم یہ بات بھی قابل ذکر ہے کہ رياست ہاۓ متحده امریکہ کی حمایت میں اٹھنے والی آوازیں سعودی امریکى تعلقات کا عقلی طور پر از سر نو جائزہ لینے کی ضرورت پر اٹھی ہیں، یہ آوازیں بااثر ہیں اور ڈیموکریٹس میں بھی اس کا وزن ہے، جو سعودی عرب جیسے قابل اعتماد اتحادی کے ساتھ تعلقات بحال کرنے کے لیے ریپبلکن حمایت کا ذکر نہیں کرتى۔ میں نے اس دورے کے بارے میں واشنگٹن میں ایک باخبر شخص سے پوچھا؛ جو ان حلقوں کے قریب ہے جن سے پرنس خالد بن سلمان نے ملاقات کی یا ان کا دورہ کیا، انہوں نے نام ظاہر نہ کرنے کی شرط پر کہا: ’’میرا خیال ہے کہ یہ ایک نہايت کامیاب دورہ تھا"۔
سعودی امریکی تعلقات کی پیش رفت سے باخبر شخص نے مجھے بتایا کہ سعودی عرب کی سیاست میں ایک اہم معاملہ ہے اور بہت سے لوگ اسے نہیں سمجھتے۔ وہ کہتے ہیں کہ: "وہ چیز جسے میں سعودی ناک کہتا ہوں، یہ نہ تو تکبر ہے اور نہ ہی جذبات ہیں"، انہوں نے مزید کہا کہ: "سعودی ناک سے مراد ہمارے اس یقین کی پختگی ہے کہ ہم صحیح راستے پر گامزن ہیں اور غلطی ہوسكتى ہے اور ایسا ہونے کی صورت میں اسے درست کیا جاۓ گا اور ہم دوسروں کے ایسا کرنے کے منتظر ہیں"۔ میرا ہمیشہ سے یقین ہے کہ ریگستان نے ہمیں یہی سکھایا ہے، چاہے تیل کی قیمتیں کتنی ہی زیادہ ہوں یا کم۔
سعودی عرب ایک عقلی ریاست ہے جو بولی لگانے کو قبول نہیں کرتی اور عجلت نہیں کرتی۔ یوں سیاست ایک مفادات کی زبان ہے۔
بدھ - 24شوال 1443ہجری - 25 مئی 2022ء شمارہ نمبر (15884)