ہر وہ شخص جو سمندر پار رزق والے ملک کی جانب ہجرت کے قابل تھا، اس نے ضمانتی قیمت کا انتظام کیا اور وہ سمندر یا نامعلوم سواری کے ذریعے سفر کر گیا۔ ان میں سے بعض نے واپس آنے کا وعدہ کیا اور نہیں آئے۔ ایسے گھر جدائی کے غم میں اور تنہائی کے درد سے اپنے آپ ہی ٹوٹ جاتے ہیں۔ جب یہ گھر آباد ہوتے ہیں تو ان کے نام ان کے مکینوں کے نام پر رکھے جاتے ہیں، جیسے عید کا گھر، ابو سلیمان کا گھر۔ لیکن جب ان گھروں کے مکین سفر کر جاتے ہیں اور انہیں دھوپ اور گرنے کے لیے چھوڑ دیتے ہیں تو وضاحت کے لیے ان گھروں کے ناموں کے ساتھ اضافہ کر دیا جاتا ہے: عید کے گھر کا کھنڈر، ابو سلیمان کے گھر کا کھنڈر۔
موجودہ مکانات میں کھنڈرات اور آدھی دیواریں ہیں اور گھر کے دالان ایسے ہی انجام کے منتظر ہیں۔ اس کے مالک یا مالکان مرد سفر کر گئے اور پیچھے بہن یا بیوی کو اس لیے چھوڑ دیا کہ وہ انہیں اپنے پاس بلا لیں گے یا پھر"کامیاب ہو کر" وہ خود انکی جانب لوٹ آئیں گے اور کامیابی کی ہمیشہ گارنٹی نہیں ہوتی۔ چنانچہ نہ تو وہ واپس آئے اور نہ ہی انکی واپسی کی منتظر خواتین کی امیدیں بر آئیں۔ برسوں بعد یہ انتظار عادت بن جاتا ہے پھر غیر موجودگی اور پھر بربادی۔
لطیفہ، اس کا گھر گاؤں میں آتے ہوئے دائیں جانب اور باہر نکلتے ہوئے بائیں جانب پہلا تھا ۔ اس کے بھائی مشی گن چلے گئے جہاں گاؤں کے زیادہ تر تارکین وطن تھے، وہ اسے خرچہ بھیجتے رہتے تھے لیکن انہوں نے اسے سپانسر نہیں کیا۔ اس کی زندگی ٹوٹی ہوئی ٹانگ کے ساتھ لکھی تھی جو ٹھیک نہیں ہوئی، وہ دروازے سے آگے نہیں چل سکتی تھی۔ یوں وہ صبح نکل کر دہلیز پر بیٹھ جاتی اور ہر آنے جانے والا، خواہ وہ بچہ ہو یا مرد ہو یا عورت، اس کے پاس سے گزرتے ہوئے اسے سلام کرتا، گویا خالہ لطیفہ کو سلام کرنا اتنا ہی ضروری تھا جتنا صدقہ دینا۔ لیکن جو بھی وہاں سے گزرتا لطیفہ اس سے سلام پہ اکتفا نہ کرتی اور صبح دوپہر شام ان سے پوچھنے لگی کہ وہ کہاں تھے، کہاں سے آ رہے ہیں، کس سے ملنے کا ارادہ ہے اور کیوں؟ وقت گزرنے کے ساتھ ساتھ راہگیروں نے سوالوں کا جواب دینا چھوڑ دیا۔ لیکن لطیفہ اسی پہ مُصر رہی، وہ کسی کے ساتھ کسی کے بھی بارے میں بات کرنا چاہتی تھی، وہ اپنی تنہائی کو دور کرنا چاہتی تھی۔ اس کے پاس ریڈیو نہیں تھا، ٹیلی ویژن ابھی تک آیا نہیں تھا، اس نے گاؤں کی شادیوں کے علاوہ کوئی گانا نہیں سنا تھا، وہ چرواہے کی بانسری کے علاوہ کوئی ساز نہیں جانتی تھی، نہ ہی اس نے کوئی اخبار پڑھا تھا، اور نہ ہی اس کے پاس شناختی کارڈ تھا۔ اس کے پاس سوائے اسکی تنہائی، اسکے اپنے اور گھر کی دہلیز کے کچھ نہ تھا۔ جہاں تک گھر کے اندر کا تعلق ہے تو چولہے کے علاوہ کسی کو معلوم نہ تھا کہ اس میں کیا ہے، کیونکہ چولہے میں دھواں تھا اور جب بہت زیادہ سردی ہوتی تو وہ چولہے ہی کے پاس رہنے پر مجبور تھی اور دہلیز تک باہر نہیں جا سکتی تھی۔ وہاں اسکے پاس سے کوئی راہگیر حتی کہ چرواہا بھی نہ گزرتا، گاؤں والے دھویں کے منظر سے جانتے کہ لطیفہ ابھی تک وہیں ہے۔ دھواں ہلکا سا اٹھ رہا تھا۔ اس لیے نہیں کہ لطیفہ کے پاس کافی لکڑیاں نہیں تھیں، بلکہ اس لیے کہ انہیں اٹھانے کی اس میں سکت نہیں تھی۔
لطیفہ اکیلی تھی، سردیوں میں آباد گھروں کی تعداد کم ہو جاتی تھی, کچھ لوگ نیچے بیروت چلے جاتے ہیں اور کچھ یہیں باقی رہ جاتے ہیں تو ان کے بارے میں نہ گھر میں کوئی پوچھتا ہے اور نہ ہی بیرون ملک ان کے بارے میں کوئی جانتا ہے۔ اس گاؤں میں جوانی کی تنہائی سے بڑھاپے کی تنہائی تک تنہائیوں کے دو پُل ہیں۔ جب لطیفہ کا انتقال ہوا تو کسی کو معلوم نہیں تھا کہ اس کی عمر کیا ہے،؟یا کوئی اس کی پرواہ کرتا۔ لیکن یہ خبر صنوبر کی ہوا کے ساتھ تیزی سے پھیل گئی اور اس کے گھر کی طرف بوڑھے لوگ لپکے جو یہ جاننا چاہتے تھے کہ وہ اپنے خفیہ ٹھکانوں میں "کتنا" چھوڑ کر گئی تھی تاکہ جہاں تک ہو سکے وہ اس پہ ہاتھ پھیلائیں۔
جمعہ 26 شوال المعظم 1443 ہجری - 27 مئى 2022ء شمارہ نمبر[15886]