عبد المنعم سعید
TT

مشرق وسطیٰ کے لیے عرب منصوبہ

جب دو سال سے بھی زیادہ عرصہ قبل کورونا وبائی مرض نے حملہ کیا تھا، تو ہم اس نتیجے پر پہنچے تھے کہ "Covid-19" کے بعد کی دنیا پہلے جیسی نہیں رہے گی۔ اس کے بعد، یہ سیاست دانوں اور محققین پر چھوڑ دیا گیا، اور یقیناً تاریخ دانوں پر، کہ وہ فیصلہ کریں کہ کیا تبدیلی آئے گی، اور پھر دنیا اس ویکسین کے انتظار میں بیٹھ گئی جو دنیا کو واپس اسی طرح لوٹانے کیلئے آئے گی، یا انسانیت کیلئے یہ ایک "نئی قسم کی عادت" کا چیلنج ہوگا جس پر ہم  عنقریب عادی ہو جائیں گے۔ اب یہ سوال ایک بار پھر روسی یوکرينی جنگ کے بعد اٹھتا ہے، جو دنیا کے ستونوں کو ہلانے کے لیے غیر طے شدہ آئی اور اس پر یہ یقین دلانے کے لیے آئی کہ جنگ کا نتیجہ کچھ بھی ہو اس کے بعد کی دنیا ویسی نہیں ہوگی جیسی اس سے پہلے تھی۔
اس طرح دنیا کو کم سے کم 3 سالوں میں دو بار تبدیل ہونا پڑا وه بهى ایسے وقت میں کہ جب ہر کوئی جانتا ہے دنیا ہميشہ قدرتى طور پر بدلتی رہتی ہے، یہاں تک کہ بغیر کسی وبائی مرض یا جنگ کے بهى۔ ان دونوں بحرانوں نے درحقیقت ایک اہم معاملے کو ایک طرف رکھ دیا تھا جو دنیا کو اورجو  اس میں ہے اسے اور کرہ ارضى اور جو اس میں ہے اسے بدل دیتا ہے، یہ "گلوبل وارمنگ" کی صورتحال ہے، جو گرم سےمزيد گرم تر ہوتی جا رہی ہے، اس میں گرم ہوائیں چلتی ہیں اور کرہ ارض کی قطبی برف پانی بن جاتی ہے جو نشيبى علاقوں كی جانب بڑھتا اور سیلاب لاتا ہے۔
انسانی فکر ان پیچیدہ بحرانوں کے درمیان جو بادلوں كی طرح بصارت، بصیرت، فکر اور استدلال پر چھا جاتے ہیں، دو نظریات کو پیش کرنے کی طرف لوٹ آئی ہے؛ پہلا قومی ریاست کی طرف واپسی ہے اور اس کے ساتھ ایک "ٹوٹی ہوئی عالمگیریت" سے نمٹنے کے لیے "خود انحصارى" آتی ہے جس میں نہ تو تجارت سرحدوں کے آر پار ہوتی ہے اور نہ ہی لوگ سمندر پار کرنے کے قابل ہوتے ہیں۔ جہاں تک اقدار کا تعلق ہے، وہ نفرت اور عدم برداشت کے فریموں میں پھنس چکے ہیں۔ چونکہ عالمگیریت ٹوٹ چکی ہے اور قومی ریاست زخمی ہو چکی ہے، اس لیے دوسرا نظریہ علاقائی نظریہ ہے جسے "لیگ آف نیشنز" میں تسلیم کیا گیا تھا اور "اقوام متحدہ" کے چارٹر کے ذریعے اس کی تصدیق کی گئی تھی، یہ دنیا کا مرکز بننے کا نیا طویل انتظار ہو سکتا ہے جس پر ہم وباء اور جنگ کے بعد پہنچے ہیں۔
یہ نظریہ يورپ کی طرف سے آیا تھا، جو پہلے وبائی امراض کے دوران اپنی کم قوت مدافعت سے حيرت زده رہ گیا اور دوسرا یہ کہ یورپی یونین نے وہ امن حاصل نہیں کیا جس کا یورپی ممالک نے یورپی براعظم میں تصور کیا تھا۔
شاید دنیا کے کسی خطے کو مشرق وسطیٰ کے خطے کی طرح اس آخری حکمت کی ضرورت نہ ہو۔ یہاں تک کہ اسے عبور کرنے کا تاریخی موقع بھی قریب آ رہا ہے۔ نہ صرف "وبائی بیماری" اور "جنگ" بلکہ ایک ایسے مستقبل کی تشکیل بھی جو ماضی سے بہت مختلف ہو۔  اس میں 4 حوصلہ افزا چیزیں ہیں: پہلا یہ کہ عرب اسپرنگ کہلانے والے يکے بعد ديگرے پرتشدد نتائج دہشت گردی سے لے کر خانہ جنگی پر مشتمل تھے اور ان میں جو باقی رہ گیا ہے وہ سیاسی جھگڑے، مذاکرات اور سودے بازی ہیں جو انہیں دوبارہ بھڑکا سکتے ہیں۔ لیکن اس میں مستحکم ہونے کا ایک اور موقع ہے۔ دوسرا یہ کہ بہت سے عرب ممالک میں گہرى اصلاحات کا عمل جاری ہے، جن میں سے کچھ  - جیسا کہ سعودی عرب - 10 سال پہلے اس كا یقین نہیں کر سكتے تھے۔ تیسرا یہ کہ خليجی تعاون كونسل سربراہی اجلاس میں "العلا اعلامیہ" نے نہ صرف قطر اور متعدد عرب ممالک کے درمیان تنازعہ کو ختم كرنے كا دروازہ کھولا بلکہ عرب کے پڑوسی ممالک: ترکی، ایران اور اسرائیل کے ساتھ بات چیت کا دروازہ بھی کھولا ہے۔ چوتھا یہ کہ امریکی صدر بائیڈن اور 9 عرب ممالک کے رہنماؤں کے درمیان جدہ میں ہونے والی ملاقات کے جو بھی نتائج ہوں، ليكن مختصر یہ کہ عرب ممالک کو خود پر بھروسہ کرنا چاہیے۔
معلوم ہوا ہے کہ اس ملاقات میں امریکی ایجنڈا سب کو معلوم ہے، کیونکہ اس سے امریکہ سعودی تعلقات کو دوبارہ سابقہ ​​شکل (تعاون) پر واپس لانے کی کوشش کى جا رہى ہے۔ امریکہ جو چاہتا ہے وہ دو چیزیں ہیں: زیادہ سے زیادہ عرب تیل خصوصاً سعودی عرب کو عالمی منڈیوں میں پہنچانا تاکہ مہنگائی ختم ہو جائے، قیمتیں کم ہو جائیں اور وسط مدتی انتخابات میں امریکی صدر کے انتخاب کے امکانات بڑھ جائیں، اور دوسری بات یہ ہے۔ عرب اسرائیل تعلقات میں مزید بہتری لانا۔
اس طرح کے معاملات یوکرينی جنگ کے بارے میں عربوں کے عمومی موقف کے مدار میں حکمت عملی کے حامل ہیں اور ایران کے ساتھ جاری تعطل کے شکار مذاکرات جو امریکہ کی آشیرباد سے ایرانی اہداف کے خلاف اسرائیلی خفیہ جنگ میں گھرے ہوئے ہیں۔
9 عرب رہنماؤں کے ساتھ ملاقات خطے میں اسٹريٹجک توازن کی واپسى کی علامت ہے، جسكے بارے میں ایران کا خیال ہے کہ اس نے اپنا مفاد حاصل كيا ہے۔ لیکن یہ ملاقات عرب علاقائی سلامتی کے منصوبے کا نقطہ آغاز بن سکتی ہے جو امریکہ کے ساتھ تعلقات سے فروغ پاتا ہے تاکہ اس کے ستون خطے کے اندر ہی ہوں۔ سادہ لفظوں میں، امریکہ کے ساتھ تعلقات کی اہمیت سے انکار نہ کرتے ہوئے، ماضی کے تجربے  اور وہ حقیقت جس میں ہم رہتے ہیں یہ امریکی سیاست کی خواہشات میں سے ایک ہے۔ آئنده امریکی صدارتی دورے میں سمجھی جانے والی تبدیلیاں، نو ممالک کے درمیان مفاہمت اور بات چیت کا مطالبہ کرتی ہيں تاکہ وہ عرب امریکی اجلاس اور باقی دنیا کے سامنے پیش کرسكیں کہ عرب خطہ اور اس کے مشرق وسطیٰ کے پڑوسى بنیادی طور پر ایک عرب مشن ہيں۔ یہ کام عرب ممالک ، جن میں سرفہرست یمن ہے، ان میں "مبینہ بہار" کی باقیات کو صفایا کرنے کے ساتھ شروع ہوگا ، جو ایسے وقت میں ہے کہ جب عرب ممالک اصلاحات اور تعمیر کے خواہشمند ہیں، وہ اس بات کو یقینی بنانے کے لیے کام کریں گے کہ کوئی بھی فریق خطے میں عدم استحکام کی کیفیت مسلط نہ کرے۔
اس کے بعد علاقائی سلامتی آتى ہے، جس میں آزادی کے بعد كى سرحدوں کو برقرار رکھنا، ریاستوں کے اندرونی معاملات میں عدم مداخلت، قومی ریاست کے ہاتھوں میں اسلحے پر اجارہ داری قائم رکھنا اور خطے میں اسلحے کی دوڑ کے لیے ایک حد مقرر کرنا، جن میں سب سے پہلے بڑے پیمانے پر تباہی پھیلانے والے ہتھیار شامل ہیں، ترقی اور اقتصادی تعاون کو حاصل كرنا شامل ہے، جبکہ يہ اقتصادی تعاون عرب ممالک (خلیجی اور غیر خلیجی دونوں) کے درمیان کئی شکلوں میں ایک موجود ہے، جیسا کہ یہ عرب ممالک اور اسرائیل کے درمیان بھی موجود ہے، جس كى  تازہ ترین مثال مصر اور اسرائیل کے درمیان یورپی یونین تک گیس کی فراہمی کے معاہدے پر دستخط ہیں۔
حالیہ ہفتوں میں امریکہ کا لب و لہجہ عرب ممالک، خاص طور پر سعودی عرب اور مصر کے ليے، بدل گیا ہے جو کہ پہلے نہیں تھا، اور یقینی طور پر حاليہ صدارتی انتخابی مہم کے دوران؛ اس میں کوئی حرج نہیں ہے، جس طرح تیل کی ایڈجسٹمنٹ میں کوئی حرج نہیں ہے جسے عرب ممالک اپنے مفادات کے لیے اہم سمجھتے ہیں۔ لیکن مسئلہ کا نچوڑ یہ ہے کہ خطے کی انتظامیہ اس کے اپنے اور ہمسایہ ممالک، بشمول اسرائیل، کے اندر سے ہى  رہے گى۔ حقیقت یہ ہے کہ فہرست طویل ہے اور یہ صرف فلسطین اسرائیل کے مسئلے تک محدود نہیں ہے، بلکہ یہ نو ممالک،جن میں سے  ہر ایک اپنے طور پر خطے کے ممالک کے ساتھ اسٹریٹجک توازن کے حصول، ان کے ساتھ موجودہ پلوں میں جان ڈالنے، اور ایسے نئے پلوں کو کھولنے میں اپنا کردار ادا کر سکتا ہے جو علاقائی بنیادوں پر ممالک کی تعمیر میں معاونت کرتے ہیں اور مارکیٹ کی توسیع، تکنیکی ترقی اور بدلتے ہوئے بین الاقوامی حالات میں فائدہ مند ہیں۔ ہو سکتا ہے کہ ایک نئی دنیا کا وقت آ گیا ہو، لیکن جب تک ایسا نہیں ہوتا ہم پہلے سے بہتر مشرق وسطیٰ سے مطمئن ہو سکتے ہیں۔

بدھ-23 ذوالقعدہ 1443 ہجری، 22  جون 2022ء، شمارہ نمبر (15912)