عبد المنعم سعید
TT

ٹیکنالوجی ہی حل ہے!

مضمون کا عنوان پہلے سے "اسلام ہی حل ہے،" "جمہوریت ہی حل ہے" اور یہاں تک کہ "سیکولرازم ہی حل ہے" جیسے پچھلے نعروں کو بحال کرنے کی کوشش لگتا ہے، یا یہ قاری کی توجہ اس طرف مبذول کرنے کی کوشش ہے کہ تکلیف دہ مخمصوں کا حل کیا ہو سکتا ہے۔ قاری کی توجہ اپنی طرف مبذول کرنا ہر لکھنے والے کے ذہن میں ہوتا ہے۔ لیکن ضروری نہیں کہ یہ لکھنے والے کے لیے بھی ہو، بلکہ اس کا مقصد کسی اہم زاویہ کی جانب عرب ممالک کی عوامی معلومات کو فائدہ پہنچانا ہے۔
جس چیز نے اس معاملے کی طرف توجہ مبذول کروائی وہ خبریں تھیں جو قاہرہ میں سعودی سفارت خانے کے میڈیا ڈیپارٹمنٹ سے آئی تھیں: "دنیا بھر میں سالانہ 100 سے زیادہ ٹیکنالوجی اسٹارٹ اپس کو سپورٹ اور بااختیار بنانے کے لیے حوصلہ افزائی اور مملکت میں ٹیکنالوجی کی معروف منزل سمجھی جانے والی (Disrupt الکراج) کے ساتھ تعاون میں کل شام ریاض میں (Google for Startups) کے ساتھ ایک اسٹریٹجک پارٹنرشپ کے آغاز کا اعلان کیا گیا۔ یہ شراکت اس بات کو یقینی بنائے گی کہ الکراج اور اس کے اسٹارٹ اپس لاطینی امریکہ، افریقہ، یورپ اور ایشیا میں بہترین ایکسلریٹر پروگراموں کے نیٹ ورک میں شامل ہوں۔" باقی خبر اور اس کی تفصیلات سے رجوع کیا جا سکتا ہے، لیکن اہم بات یہ ہے کہ عرب ممالک میں ایک تکنیکی انقلاب جاری ہے جس نے حالیہ برسوں میں اصلاحات کی راہ اپنائی ہے اور خاص طور پر نام نہاد "عرب بہار" کے واقعات کے بعد کہ جس نے خطے کو افراتفری، تشدد اور جنگ کے دہانے پر پہنچا دیا تھا۔ حالیہ وقت میں تمام عرب ممالک کی کوشش پے کہ وہ اصلاح کی انتھک جستجو پر مبنی راہ کو اپناتے ہوئے ایک ایسے وژن کے ذریعے ترقی کریں جو ان کی جامعیت اور سائنس کی گہرائی میں ترقی کے اطلاق سے لے کر تفصیلی مراحل سے مشروط ہو۔
درحقیقت سعودی عرب کے حوالے سے صرف مذکورہ بالا ہی خبریں نہیں ہیں بلکہ مملکت میں "دلدل" کے علاقوں میں ترقیاتی کاموں سے متعلق دیگر دلچسپ خبریں بھی سامنے آئی ہیں۔ یہ تاریخی طور پر قدیم علاقے ہیں جہاں پانی کے خشک ہونے کا تخمینہ لگایا گیا تھا، پھر ریت نے اسے ڈھانپ لیا اور یہ بنجر زمینوں کی صف میں شامل ہو گئی۔ چونکہ یہ زمین زیریں ہے، اس لیے سائنسی طور پر سمندر کے پانی کو اس کی طرف کھینچنا ممکن ہو گیا ہے جس سے جھیلیں بنیں گی جو منسلک ہو کر اندرون ملک سمندر بن سکیں گی۔ یہ قدرتی طور پر گرم ہونے کی وجہ سے پگھلا دینے والے ماحول کو نرم کرنے کے علاوہ ہے۔ یہاں سورج کی شعاعوں سے پانی کی بھاری مقدار بخارات میں تبدیل ہو کر ہوا میں نمی کو بڑھائے گی اور اس طرح فصلوں کی نشوونما کے لیے پانی کو پیاسی زمین تک کھینچ لے جانے میں مدد ملے گی۔
دونوں خبریں سعودی ریاست میں عمومی طور پر سائنسی صلاحیت میں بے پناہ اضافہ اور ریاست کے جغرافیہ کے شدید استحصال کی طرف اشارہ کرتی ہیں، تاکہ اس حقیقت کو حاصل کیا جا سکے جو اس وقت تاریخی ہو گی جب سعودیہ ایک زرعی ملک بن جائے گا۔ لیکن یہ صرف سعودی عرب کے بارے میں نہیں ہے، حقیقت یہ ہے کہ متحدہ عرب امارات نے طویل عرصے سے شمسی توانائی کو اپنانے کی کوشش شروع کر رکھی ہے تاکہ اسے "مرصد" شہر میں استعمال کیا جا سکے، جبکہ وہ تیل والا ملک بھی ہے، یا پھر وہ ایسا ہی تھا کیونکہ اب تیل اس کی کل ملکی پیداوار کا صرف 26 فیصد ہے۔

مصر اپنی موجودہ نشاۃ ثانیہ میں اپنے تکنیکی استعمال کو متنوع بنا چکا ہے، جن میں سے کچھ نے شمسی توانائی کے سبز راستے کی پیروی کی، جو اسوان میں "بنبان" کی جگہ سے شروع ہوئی، اور اب اس سے دوگنا نہر سویز کے محور اور سیناء میں قائم کئے جائیں گے۔ تینوں ممالک اور دیگر عرب ممالک جیسے اردن اور مراکش میں انفراسٹرکچر اور نئے شہروں کا تیزی سے آغاز نئی ٹیکنالوجی کے استعمال پر مضبوط انحصار کے سبب تھا۔ عام طور پر یہ سائنسی توانائی میں عملی سائنس میں واضح اضافے کے ذریعے یونیورسٹیوں اور جدید تکنیکی اداروں کی تعمیر کے ذریعے ہوتا ہے، جن میں سے کچھ سمندروں اور خلیجوں کو عبور کرتے ہیں، جیسے کہ سیناء میں کنگ سلمان یونیورسٹی، جو مصر میں مصری نہر سویز سے نظر آئے گی اسی طرح سعودی شہر "نیوم" مملکت میں اور مصر میں بھی۔
خبروں اور تفصیلات میں مسئلے کے جوہر اور "حل" سے محروم نہ ہونے کے لیے دلچسپ حقیقت کے تین پہلو ہیں: پہلا یہ کہ عرب ممالک میں جو اصلاحاتی عمل اب ہو رہا ہے اس سے پہلے عرب ممالک کے لیے دو صدیاں  اس کے لیے کافی نہیں تھیں، خواہ وہ ممالک دولت کے اعلیٰ ترین عہدوں پر فائز تھے۔ دوسرا یہ کہ غریب اور امیر عرب ممالک کے پاس بے پناہ وسائل ہیں جن میں سے کچھ لامحدود ہیں، جس طرح سورج، جو حقیقت میں سائنسی و تکنیکی زبان میں سبز "توانائی" ہے؛ اور ریت، جو اسی زبان میں "سلیکون" ہے، یہ جدید ٹیکنالوجی کے تمام اجزاء میں شامل ہے۔
مصر میں نہر سویز کے محور پر ایک ایسی فیکٹری ہے جو چینی ٹیکنالوجیز پر انحصار کرتی ہے جو سیناء کی ریت اور چٹانوں کو فرش، دروازوں، کھڑکیوں اور فرنیچر میں تبدیل کرتی ہے اور ممکنہ طور پر اس سے کاروں کی باڈی بھی بنا سکتی ہے۔ عرب ممالک کے ارد گرد کے سمندر کرہ ارض کے سمندروں کے پانیوں تک پھیلے ہوئے ہیں، لہذا یہ قابل تجدید ہیں اور گلوبل وارمنگ کی وجہ سے پھیل رہے ہیں۔ اس سے بڑھ کر یہ "نیلی" توانائی کی نمائندگی کرتے ہیں جو "دلدلی" زمین کو پودے لگانے اور فرٹیلائزیشن میں بدل دیتی ہے۔ آخر میں لیکن آخری نہیں، ہماری تاریخ زمانے کے اعتبار سے گہری ہے جس میں لامحدود انسانی صلاحیت میں اضافہ ہے۔ سعودی عرب میں 8 ہزار سال پرانے قدیم آثار دریافت ہوئے; اگرچہ مصری تاریخ میں جو چیز عام ہے وہ یہ کہ مصر کے شمالی اور جنوبی حصوں میں اس کی تاریخ کا مشترکہ آغاز 5200 سال قبل ہوا۔ اس سے پہلے دو ہزار سال تک مصری تہذیب و تمدن دوسری سلطنتوں کے تحت تھا۔
تیسرا یہ کہ "انفینٹی" کی اس حالت کا مطلب فخر کرنا یا اسے سخت محنت سے بدلنا نہیں ہے۔ بلکہ یہ اس کے اندر موجود عظیم وسائل کی وجہ سے ہے جسے ٹیکنالوجی کے ذریعے ممالک، عوام اور پوری دنیا کے فائدے کے لیے دوبارہ استعمال کیا جاتا ہے۔
صاف الفاظ میں عربوں اور بالخصوص ان میں مصلحین کا وقت آگیا ہے کہ وہ دنیا اور اس کی ترقی پر یہ ثابت کریں کہ وہ نہ صرف سامان، خدمات اور توانائی کے شعبوں میں بلکہ اس سے بڑھ کر وہ فکر اور تجدید کے شعبوں میں ان ممالک پر انحصار کرتی ہے۔
ہمارے عرب ممالک میں اور دنیا کے دیگر ممالک میں یہ ثابت ہے کہ سرد جنگ کے خاتمے کے بعد سے جو کچھ ہوا اس کا دنیا میں جائزہ لینے کی ایک وسیع کیفیت پائی جاتی ہے، اور اس بارے میں پہلے بھی یہاں پیش کیا جا چکا ہے، جس کے لیے نہ صرف "مغرب" میں کمزوری کی موجودگی اور مشرق کے عروج کی ضرورت ہے، کہ جس کی نمائندگی چین کرتا ہے؛ لیکن اس سے بڑھ کر "گلوبلائزیشن" یا کرہ ارضی کی تقدیر کا انحصار ایک یا دو ریاستوں، یا ایک یا دو کیمپوں پر نہیں کرنا چاہئے۔
ہمارے ملک میں اب جو اصلاحاتی کوششیں ہو رہی ہیں، وہ بھی ایک طرح کا جائزہ ہیں، اور بنیادی سوالات کو اٹھانا ہے۔ اگر پوری بیسویں صدی کے دوران عرب دنیا میں یہ سوال عام تھا کہ: ہم اس قدر پیچھے کیوں رہے کہ ہم استعمار اور پسماندگی کا شکار ہوگئے؟ تو اکیسویں صدی کا سوال یہ ہے کہ: ہم جلد از جلد ترقی یافتہ ممالک کی صف میں کیوں نہیں آ جاتے؟ جبکہ ترقی میں دولت، اخلاق اور مادی ترقی شامل ہے۔ یہ سوال اور اس کے جواب کے درمیان پل ان نوجوان عرب نسلوں کے کندھوں پر ٹکا ہوا ہے جنہوں نے پہلی بار صدی کی دوسری دہائی کے آغاز میں اپنے زور و شور سے پرتشدد وجود کا اعلان کیا تھا؛ دوسری بات، تیسری دہائی کے آغاز میں یہ نوجوان نسل پرسکون، علمی، پرجوش اور بااختیار ہے، جبکہ چوتھے اور پانچویں سائنسی اور تکنیکی انقلابات ہمارے یونیورسٹی کے ہاسٹلز اور یونیورسٹیوں پر اپنے وجود سے حملہ آور ہیں، جب کہ "جیمز ویب" دوربین نئی کائناتوں اور اجسام کے دروازے کھولتی ہے۔
مملکت سعودی عرب کی طرف سے عرب ہنرمندوں کا اجتماع منعقد کرنے کی ہدایت، جس میں اشارہ ہے کہ؛ یہ ہمارے بچوں کے لیے "تالیاں بجانے" کا موقع نہیں ہے جب کہ وہ مستقبل کے دروازے پر دستک دے رہے ہیں، درحقیقت یہ ایک ایسی عظیم انسانی دولت کا نظارہ ہے جو سرحدوں کو عبور کرتی ہے، اگر یہ عرب ممالک کے درمیان نہیں، تو یہ ان کے اور دنیا کے درمیان ہوگا۔

بدھ - 26 محرم 1444ہجری - 24 اگست 2022ء شمارہ نمبر [15975]