وہ اپنے خاندان میں گھرے سکون کے ساتھ اس دنیا سے رخصت ہوئیں، یہ ملکہ الزبتھ دوم کے سفر آخرت پر برطانوی اظہار خیال ہے، جن کے نام پر تاریخ نے بے مثال ریکارڈز درج کیے اور مستقبل قریب میں شاید ایسا مشاہدہ نہ کیا جا سکے؛ ان کی طویل عمر اور تخت نشینی کی مدت ان کے طویل کیریئر کو گھیرے ہوئے ہے جو کہ تاریخی شخصیات کی سیریز میں نمایاں ہیں۔
زمین کی زیادہ تر آبادی یہ جانتے ہوئے پیدا ہوئی اور بڑی ہوئی کہ برطانیہ کا کوئی بادشاہ نہیں ہے سوائے ملکہ الزبتھ دوم کے، اور چونکہ وہ ایک ملکہ ہے لہذا حکومت نہیں کرتیں؛ انہیں دنیا بھر کی اکثر عوام کی طرف سے احترام اور تعریف ملی ان کے جانے سے قومیں، عوام اور نسلیں متاثر ہوئیں جو انہیں روایتی میڈیا یا جدید سوشل میڈیا کے ذریعے جانتے تھے۔
برطانوی نوآبادیاتی میراث دنیا کے بہت سے ایسے لوگوں کے لئے بری یاد ہے جو کبھی اس سلطنت کے ماتحت تھے کہ جس پر سورج کبھی غروب نہیں ہوتا تھا۔ یہ برطانوی سیاست کا معاملہ ہے کہ جسے حکومتیں اور پارٹیاں چلاتی ہیں، نہ کہ شاہی تخت، اس لیے چرچل جیسی شخصیت مثال کے طور پر ملکہ کے برعکس بے شمار پسندیدگی اور نفرت رکھتی ہے۔ کیونکہ چرچل حکومت کر رہا تھا، فیصلے کر رہا تھا، پالیسیوں اور تعلقات کا انتظام چلا رہا تھا اور وہ دوسری جنگ عظیم میں داخل ہوا اور فتح یاب ہو کر نکلا، قدیم برطانوی کالونیوں میں اس کی دشمنیاں اور عداوتیں تھیں جو اس کی تاریخ کو کچھ ایسے ظلم کے ساتھ نمایاںکرتی ہیں جس نے اپنے پیچھے درد و الم کو چھوڑا۔
برطانیہ نے فرانس، امریکہ اور روس کے مقابلے میں کوئی انقلاب نہیں دیکھا، بلکہ کچھ مختصر، شدید اور پرتشدد واقعات کے باوجود ایک دانشمندانہ اور بتدریج ترقی کا مشاہدہ کیا۔ ملکہ الزبتھ دوم کے طویل عہد کے دوران برطانیہ نے وسیع استحکام دیکھا اور برطانیہ کی تاریخ - دوسروں کی طرح - تفصیلات، پیچیدگیوں، سیاسی، اقتصادی، مذہبی اور سماجی الجھنوں سے بھری ہوئی نہیں ہے۔ یہ برطانیہ، اس کی فطرت اور ترقی کے مطابق ہے، لیکن یہ کسی دوسری قوم یا ملک کے لیے مسلمہ ماڈل نہیں ہے۔
یہ وسیع دعویٰ، جو مغرب اور دنیا کے کچھ ممالک میں بڑے پیمانے پر پھیلا ہوا ہے، کہ جمہوریت حکومت کے نمونے کے طور پر "تاریخ کا خاتمہ" ہے، کوئی سائنسی تنازعہ ثابت نہیں کرتا۔ جمہوری نظام حکومت میں بڑی تبدیلیاں دیکھنے کو مل رہی ہیں۔ اپنی شکلوں، اداروں اور عوامی امیج میں برطانیہ ایک جمہوری ملک ہے اور ایران بھی، لیکن یہ مقابلہ ایک مضحکہ خیر ہے مگر ظاہری طور پر یہ درست ہے۔ دنیا بھر میں حکمرانی کے مختلف ماڈلز ہیں اور ہر قوم و عوام کا ایک مہذہب پہلو ہوتا ہے جس کے ذریعے اسے ترقی کرنی چاہیے۔ کیونکہ مغربی ماڈل کی درآمدگی کچھ ممالک میں مکمل طور پر ناکام ثابت ہوئی، ایک بالکل مختلف تہذیبی تناظر سے تعلق رکھنے والے حکومتی ماڈلز کی اندھی درآمد سے ہونے والی تباہی کا اندازہ لگانے کے لیے کسی بھی مبصر کے لیے یہ مشاہدہ کر لینا ہی کافی ہے کہ ماضی میں عراق، لبنان یا افغانستان میں کیا ہوا اور ہو رہا ہے۔
اس تناظر میں متعدد صورتوں میں مغربی دباؤ سے دور، سعودی ولی عہد شہزادہ محمد بن سلمان نے خاص طور پر اس نکتے پر واضح اور شفاف بات کی کہ کوئی ایسی بات نہیں کہ جس پر ہم شرمندہ ہوں۔ انہوں نے مارچ 2022 میں "دی اٹلانٹک"میگزین کو انٹرویو دیتے ہوئے کہا: "ہماری ریاست اسلام، قبائلی ثقافت، علاقے کی ثقافت، قصبے کی ثقافت، عرب ثقافت، سعودی ثقافت اور اس کے عقائد پر قائم ہے اور یہ ہماری روح ہے، اگر ہم نے اس سے چھٹکارا حاصل کیا تو اس کا مطلب یہ ہوگا کہ گویا ملک تباہ ہو جائے گا۔"
انہوں نے مزید کہا: "سعودی عرب ایک شاہی ریاست ہے جو اسی ماڈل پر قائم کی گئی۔ میں نے آپ کو بتایا تھا کہ اس بادشاہت کے تحت ایک پیچیدہ نظام ہے، جو قبائلی شیوخ، قصبوں کے سربراہوں اور صحراؤں کے قبائلی نظاموں پر مشتمل ہے، میں آپ کو ایک مثال سے وضاحت کرنا چاہتا تھا کہ سعودی عرب میں بادشاہت کیسی دکھتی ہے"، انہوں نے یہ بھی کہا: "میں سعودی عرب کو بادشاہت سے مختلف نظام میں تبدیل نہیں کر سکتا، کیونکہ یہ معاملہ ایک ایسی بادشاہت سے جڑا ہوا ہے جو تین سو سال سے موجود ہے، یہ قبائلی اور شہری نظام، جن کی تعداد ایک ہزار تک ہے، اسی طرح پچھلے کئی برسوں سے زندگی گزار رہے ہیں اور وہ شاہی ریاست کے طور پر سعودی عرب کے تسلسل کا حصہ تھے۔"
اسی تناظر میں متحدہ عرب امارات کے صدر کے سفارتی مشیر انور قرقاش نے گزشتہ اپریل میں اپنے ایک لیکچر کے دوران کہا: "بہت سے مغربی سیاست دانوں کی طرف سے ہماری عصری دنیا کو نظریاتی طور پر جمہوری اور آمرانہ حکومتوں کے درمیان متضاد اور منقسم بنانے کی کوشش کی جاتی ہے، یہ نقطہ نظر مسترد اور ناقابل قبول ہے اور یہ مغربی پروپیگنڈے کا حصہ ہے۔" اس بات پر غور کرتے ہوئے کہ "ہماری دنیا میں عظیم تنوع اور مختلف تاریخی تجربات اس منطق کو مسترد کرتے ہیں۔ جو چیز ایک ملک کے مفاد میں ہو ضروری نہیں کہ وہ دوسرے ملک کے لئے بھی ہو۔ ہر ملک کا اپنا فریم ورک، ثقافت، امکانات اور صلاحیتیں ہوتی ہیں، تاکہ وہ کلوننگ، جو کہ فائدے سے کہیں زیادہ نقصان دہ ثابت ہوا ہے، کی بجائے اپنی حقیقت کی بنیاد پر اپنا ماڈل بنائے۔"
ملکہ الزبتھ دوم کی خلیجی عرب ریاستوں اور ان کے رہنماؤں کے ساتھ ایک طویل تاریخ ہے۔ ان کی وفات پر میڈیا اور ذرائع ابلاغ نے ان کی بہت سی تصاویر اور ویڈیوز سامنے لائیں، جو خلیجی ممالک کے دوروں کے دوران، یا برطانیہ میں خلیجی رہنماؤں کے خیرمقدم کے دوران بنائی گئیں اور اسی طرح برطانیہ کے بادشاہ چارلس سوئم کے ساتھ بھی، جنہوں نے خلیج تعاون کونسل کے تمام ممالک سے تعزیت وصول کی۔
برطانوی تخت دنیا کی بادشاہتوں کے لیے ایک نمونہ فراہم کرتا ہے، جس میں محلات، پارٹیوں اور سخت پروٹوکول کے بھرپور مظاہر ہیں، جن کی الزبتھ دوم کو خواہش تھی، بائیں بازو کے پروپیگنڈوں سے دور، لوگ قدیم روایات، شاہی عیش و عشرت اور برطانوی شاہی مواقعوں، خوشی یا مسرت کو دیکھنا پسند کرتے ہیں، لاکھوں لوگ جن کی پیروی کرتے ہیں اور کچھ لوگ انہیں دیکھنے کے لئے دنیا بھر کا سفر کرتے ہیں۔
ایسے تاریخی موقع پر کہ جسے دنیا بھر میں بہت سے لوگ پیروی کر رہے ہیں، آنجہانی ملکہ کے حصے میں آنے والی ہمدردی اور احترام کے سامنے بائیں بازو کا لہجہ دھیما سا لگتا ہے اور خاص طور پر مغربی لبرل بائیں بازو، جو فکری، سیاسی اور اخلاقی بے ضابطگیوں والے معاشروں، لوگوں اور ممالک پر "آمریت" کا استعمال کرتے ہیں اور ثقافت، میڈیا اور فنون کو استعمال کرتے ہیں، لہذا مناسب یہ ہے کہ ایسے تاریخی لمحے میں پرسکون رہیں اور طول نہ دیں۔
یہ بات معروف ہے کہ ملکہ الزبتھ دوم شاہی پروٹوکول کے ساتھ کتنی سخت اور پابند تھیں اور اسی طرح ان کے خاندان کے افراد ان کے پابند رہے، لیکن اس کے باوجود وہ متعدد ادوار میں اپنے ملک اور دنیا کی ترقی کے ساتھ ترقی کرنے میں کامیاب رہیں، جس کی تعریف ان کے بیٹے اور تخت کے وارث، چارلس سوئم نے اپنی پہلی تقریر میں کی، جسے ان کی موت کے بعد میڈیا نے رپورٹ کیا، اس سے ظاہر ہوتا ہے کہ وہ اپنے دور حکومت میں عزم اور ترقی کے درمیان اسی توازن کو جاری رکھیں گے۔
آخر میں، آنے والے دنوں میں دنیا برطانوی شاہی پروٹوکول کے مطابق ملکہ الزبتھ دوم کی آخری رسومات، سوگ اور تدفین کی تقریبات کی پیروی کرے گی۔ اس کا موازنہ خلیجی عرب ریاستوں میں سوگ اور تدفین کی رسومات اور تقاریب سے کیا جا سکتا ہے، جو ثقافتی اختلاف کی گواہ ہیں۔ خلیجی رسومات کی خصوصیت سادگی، عملییت اور ظاہری شکل سے دور ہے، یہ ایسی چیز ہے جس کے مختلف عوام اور ثقافتوں میں متعدد مشابہتیں ہیں۔
اتوار - 14 صفر 1444ہجری - 11 ستمبر 2022ء شمارہ نمبر [15993]