مشاری الذایدی
مشاری الذیدی (مولود 1970) کا شمار ایک ماہر صحافی، سیاسی تجزیہ نگار اور مضمون نگار کی حیثیت سے ہے، سعودیہ عربیہ کے رہنے والے ہیں اور فی الحال کویت میں مقیم ہیں، متوسط درجے کی کارکردگی اور مذہبی جذبات کے ساتھ ان کی فراغت سنہ1408 هـ میں ہوئی، وہ اسلامی سرگرمیوں، موسم گرما کے مراکز اور لائبریریوں میں پیش پیش رہے ہیں اور اسی کے ساتھ ساتھ مقامی عرب پریس، دیگر پروگرام اور اسلامی انتہاپسندی کے موجودہ مسائل پر ایک ماہر صحافی اور قلمکار کی حیثیت سے حصہ لیا ہے ۔
TT

کیا عرب شام میں فوجی مداخلت کر رہے ہیں؟

 

مشاری الذایدی
       جو کچھ شام میں ہوا اس کے بعد کیا روس اور ایران "اسد ہمیشہ کے لئے، اسد یا پھر کوئی نہیں” جیسے نعرے کی ضمانت دے سکتے ہیں؟ اور یہ نعرہ دمشق اور دیگر علاقوں میں سرکاری علامت کے طور پر دیواروں یا جو کچھ شام میں بچا ہے اس کے نعروں میں سے ایک نعرہ ہے۔
       کیا ان حقائق کو نظر انداز کرنا ممکن ہے جو لاکھوں پناہ گزینوں، جان بچا کر فرار ہونے والوں، نقل مکانی کرنے والوں یا پھر ہزارہا ہلاکتوں، زخمیوں، گمشدہ اور قید کئے گئے افراد کے خون اور آنسوؤں کے علاوہ لہلہاتے کھیتوں کی خرابی اور تباہی سے ہونے والے کروڑوں نقصانات پر دھوئیں سے تحریر کئے گئے ہیں؟
       اہم بات، کیا روسی شہنشاہ خوفناک ولادیمیر یا جنرل بادشاہ خامنئی کے لئے ممکن ہے کہ وہ 2001 سے آج کے دن تک جاری جارحانہ حملوں اور فرقہ وارانہ قتل وغارت کے سبب شامیوں اور بہت سے عربوں کے دلوں پر لگے غیض وغضب کے زخموں کو مٹا سکتے ہیں؟
        کیا باشعور اور انصاف پسند دنیا بشار کی حکومت اور ان کے کارندوں کو معاف کر سکتی ہے؟ جنہوں نے زمین میں گڑھا کھودا جس میں گندا پانی جمع ہوا جو "القاعدہ” کے مچھروں اور "داعش” کے ملیریا کو اپنی جانب متوجہ کر رہا ہے۔
         شام کا مسٔلہ بنیادی طور پر اس کے ہمسایوں اور مشرق وسطی کے خطے میں اس کے ساتھیوں سے متعلق ہے۔ (۔۔۔)
        سعودی عرب کے وزیر خارجہ عادل الجبیر نے کل (بروز منگل) ریاض میں اقوام متحدہ کے سیکرٹری جنرل انتونیو گوتریچ کے ہمراہ پریس کانفرنس میں کہا: "ہم اسلامی اتحاد کے ضمن میں شام میں فوج بھیجنے کے بارے میں اس بحران کے آغاز سے ہی ریاست ہائے متحدہ امریکہ کے ساتھ بات چیت جاری رکھے ہوئے ہیں”۔ انہوں نے مزید کہا کہ سعودی عرب نے سب سے پہلے یہ پیشکش سابق صدر باراک اوباما کے سامنے رکھی تھی۔ (۔۔۔)
       امریکی میگزین "وال سٹریٹ جرنل” نے امریکی حکام کے بیانات کو نقل کیا ہے کہ صدر ڈونالڈ ٹرمپ کی انتظامیہ شام میں ایک عرب طاقت بنانے کی کوشش کر رہی ہے۔ علاوہ ازیں امریکی میگزین کی رپورٹ میں کہا گیا ہے کہ اس بارے میں مصر کے ساتھ بھی عملی رابطے قائم کئے گئے ہیں۔
        سعودی عرب کی جانب سے شامی عوام کے ساتھ کھڑے ہوںے کے علاوہ "شام کی یکجہتی اور آزادی کی حفاظت” کی یقین دہانی کی گئی ہے، جیسا کہ شاہ سلمان کی زیر صدارت سعودی حکومت کے ہفتہ وار اجلاس کے بیان میں کہا گیا ہے۔ بے شک اس میں شام کی سرزمین "وحدت اور آزادی” سے متعلق واضح اشارہ ہے۔
       اگر یہ مداخلت ہوئی، تو یہ صرف سعودی عرب کی مداخلت نہیں ہوگی بلکہ یہ ایک بین الاقوامی منصوبے اور ضمانتوں کے ساتھ اسلامی اتحاد کی چھتری میں امریکی شراکت کے ساتھ ہوگی۔
     کیا ایسا ہو سکے گا؟

بدھ – 2 شعبان 1439 ہجری – 18 اپریل 2018ء –  شمارہ نمبر: 14386