مشاری الذایدی
اکثر یہ دلیل سننے کو آ رہی ہے کہ: یہ مذہبی روداری کے خیالات اور نرم فقہی اختیارات کہاں تھے؟ اب یک دم یہ سب کوں نکل آئے ہیں؟ اور بعض اوقات چھپی ہوئی چیز ہی حقیقت ہوتی ہے، یہ سب اسلام کے خلاف ایک بڑی سازش ہے۔۔۔ جبکہ یہ سب اسلام ہی ہے!
مثلا سعودی عرب میں خواتین، فن، تفریح اور مسلکی یا مذہبی یا حتی کہ دینی اختلاف رکھنے والے دیگر لوگوں کے ساتھ تعلقات کے بارے میں بغیر کسی علم بحث و مباحثہ پیدا ہو رہا ہے۔ جو لوگ کفر کے الزامات کے تیر برساتے ہیں یہ وہ لوگ ہیں جن کی نظروں کے سامنے سے کبھی قدیم فقہی کتب نہیں گزریں جو فتویا ور رائے کی بنیادی اساس ہیں، آج کے دشنام درازی کرنے والے انہیں قول کے اعتبار سے بدعت کہتے ہیں۔
سعودی ولی عہد پرنس محمد بن سلمان نے پریس انٹرویوز کے دوران کہا ہے کہ حکومت کی خواہش رکھنے والے گروہ کی جانب سے اسلام کو یرغمال بنایا گیا ہے، جیسے جماعت "الاخوان” یا خمینی جماعت (فقہی خلافت) یا سروری جماعت؛ یہ "اخوان” کی ایک شاخ ہے، جبکہ اسلام ان جماعتوں کی ذاتی ملکیت نہیں ہے۔ انہوں نے اسی ضمن میں ان جماعتوں کے خواتین کے بارے میں نظریات کو واضح الفاظ میں بیان کیا اور کہا کہ عام مسلمانوں کو اسے سمجھنے کی ضرورت ہے کہ کشش اور اداب کا تعلق مسلمان خواتین کے لباس کے رنگ، ان کی سلائی کڑھائی اور برقعے کی تراش خراش سے ہرگز نہیں ہے۔
یہ بالکل صحیح ہے کہ لباس علاقائی ماحول اور ذاتی پسند کے مطابق بنائے جاتے ہیں، مثال کے طور پر موریطانیہ یا سوڈانی خواتین کے لباس کو چیچنیا، ایران یا کرد خواتین کے لباس سے مقارنہ کریں تو یہ سن ایک خاص نوعیت یا علاقائی ورثہ کی بنیاد پر تیار کئے جاتے ہیں، لیکن یہ سب مشترکہ کشش یا خوبصورتی کے اعتبار سے ایک ہیں مگر دور حاضر کے ملبوسات کو رنگوں کی بنیاد پر انفرادیت حاصل ہے ۔۔۔۔ اسی طرح مزید بھی۔
مراد یہ ہے کہ یہ سب بدعت یا آج کی کوئی نئی بات نہیں ہے جس کی کوئی اصل نہ ہو۔ درحقیقت جیسے ہی بند کھڑکی کھلتی ہے تو صاف ہوا اندر داخل ہوتی ہے۔۔۔ جو نئی ایجاد یا اسی وقت عدم سے وجود میں نہیں آئی۔
جمعہ – 13 رجب 1439 ہجری – 30 مارچ 2018ء شمارہ: [ 14367]